|
ویب ڈیسک — بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے وزیر اور طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما ناہد اسلام نے کہا ہے کہ معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ وطن واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں۔
ناہد اسلام بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں پوسٹل، ٹیلی کمیونی کیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں۔ عبوری حکومت میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے جمعے کی شب خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو پہلا انٹرویو دیا۔
معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ سے متعلق ناہد نے کہا "میں حیران ہوں کہ وہ ملک سے کیوں فرار ہوئیں۔"
انہوں نے کہا کہ شیخ حسینہ کے دور میں ہونے والی ہلاکتوں پر انصاف چاہتے ہیں اور طلبہ کے انقلاب کے مطالبات میں سے ایک اہم مطالبہ یہ ہے۔
ناہد کے مطابق اگر شیخ حسینہ وطن واپس نہ آئیں تو ہم انہیں وطن واپس لانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ ہم ان کی گرفتاری چاہتے ہیں پھر چاہے وہ باقاعدہ عدالتی نظام کے ذریعے ہو یا اسپیشل ٹربیونل کے ذریعے۔ ہم اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے بات کر رہے ہیں۔
طلبہ تحریک کے ایک اور رہنما ابو بکر نے بھی 'رائٹر'ز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شیخ حسینہ وطن واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں۔
ناہد اسلام ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے طالب علم ہیں جو انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔ ان کی قیادت میں بنگلہ دیش میں طلبہ نے احتجاج کیا تھا جس کے بعد شیخ حسینہ کو نہ صرف عہدہ چھوڑنا پڑا تھا بلکہ وہ ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔
شیخ حسینہ کے امریکہ میں مقیم صاحبزادے سجیب واجد جوئے نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی والدہ نے ملک چھوڑنے سے قبل استعفیٰ نہیں دیا تھا اور وہ عبوری حکومت کی جانب سے الیکشن کے اعلان کے بعد وطن واپس چلی جائیں گی۔
شیخ حسینہ کو وطن واپس لانے سے متعلق عبوری حکومت کے وزیر کے بیان پر رائٹرز نے سجیب واجد سے رابطے کی کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
'الیکشن کے بارے میں فی الحال کچھ واضح نہیں'
ناہد اسلام نے کہا کہ عبوری حکومت کی پہلی ترجیح صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد اور گزشتہ حکومت کے دوران ہونے والی مبینہ کرپشن کی تحقیقات کرانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل ملک میں انتخابی اور آئینی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لہٰذا یہ واضح نہیں ہے کہ الیکشن کب ہوں گے۔
ناہد نے انتخابات کے لیے کوئی ٹائم لائن دینے سے گریز کیا ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ کبھی ملک کے وزیرِ اعظم بننا پسند کریں گے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کیا بنوں اس کا انحصار بنگلہ دیش کے عوام پر ہے۔
بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان تعلقات پر بات کرتے ہوئے ناہد نے کہا کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے عوام کے بجائے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور نئی دہلی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے بصورت دیگر خطے میں مسائل پیدا ہوں گے۔
شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ کس طرح ہوا؟
بنگلہ دیشی طلبہ کا احتجاج جون 2024 میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں عدالت نے سرکاری ملازمتوں سے متعلق کوٹہ سسٹم کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
بنگلہ دیش میں 50 فی صد سے زائد سرکاری ملازمتیں کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی تھیں جس میں 30 فی صد کوٹہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے کی تحریک میں حصہ لینے والوں کی اولاد کے لیے مختص تھا۔
حکومت کے ناقدین کا الزام تھا کہ حکمران جماعت عوامی لیگ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نافذ کوٹے کو اپنے سیاسی حامیوں اور کارکنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے کوٹے کے خاتمے کے لیے مظاہروں کا آغاز کیا۔ جولائی کے وسط میں جب تحریک نے شدت اختیار کی تو سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور حکومت نے ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کرتے ہوئے شورش زدہ شہروں میں کرفیو لگا دیا۔
پرتشدد مظاہروں کے دوران لگ بھگ تین سو اموات ہوئیں۔ اگرچہ 21 جولائی کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا فیصلہ دے دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود یہ احتجاجی لہر برقرار رہی اور 5 اگست کو وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو عہدے سے استعفیٰ دے کر پڑوسی ملک بھارت منتقل ہونا پڑا۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم