رسائی کے لنکس

ایران نے اسرائیل کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا


ایران مسلسل اسرائیل کے خلاف کارروائی کے بیانات دے رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
ایران مسلسل اسرائیل کے خلاف کارروائی کے بیانات دے رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
  • فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بیان میں صیہونی حکومت کے بین الاقوامی جرائم پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا: ایرانی وزارتِ خارجہ
  • ایران سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے جس نے اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے: وزارتِ خارجہ
  • ایران نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے اس بیان کو اسرائیل کی عملی اور عوامی حمایت سے بھی تشبیہہ دیا ہے

ایران نے اسرائیل کے خلاف دھمکی آمیز رویہ ترک کرنے کا مغربی ممالک کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔

مغربی ممالک کے سفارت کار مشرقِ وسطیٰ میں کسی ممکنہ بڑے تنازعے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ یہ خطہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے سبب پہلے ہی تناؤ کا شکار ہے۔

امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ممالک نے پیر کو جاری کیے گئے بیانات میں ایران پر کشیدگی کم کرنے پر زور دیا تھا۔

ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے مغربی ممالک کی خطے میں تناؤ کم کرنے کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بیان میں صیہونی حکومت کے بین الاقوامی جرائم پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا۔

ناصر کنعانی کے بیان کے مطابق ایران سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے جس نے اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی ہے۔

ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے منگل کو جاری بیان میں کہا کہ اس طرح کی درخواست کی کوئی سیاسی منطق نہیں ہے۔

ان کے مطابق یہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔

ایران نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے اس بیان کو اسرائیل کی عملی اور عوامی حمایت سے بھی تشبیہہ دیا ہے۔

پیر کو جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے غزہ میں جنگ بندی اور ایران سے تناؤ کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس بیان پر فرانس کے صدر ایمانوئل میکراں، جرمنی کے چانسلر اولاف شولز اور برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے دستخط کیے تھے۔

یورپی رہنماؤں کے بیان میں کہا گیا تھا کہ جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔

مغربی ممالک کے رہنماؤں کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایران اسرائیل کے خلاف کارروائی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

ایران نے تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔

حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو گزشتہ ماہ 31 جولائی کو تہران میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ نو منتخب صدر مسعود پزشکان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے ایرانی دارالحکومت میں موجود تھے۔

دوسری جانب اسرائیل نے اس قتل کی نہ تو ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ ہی اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

اتوار کو چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے ایرانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا تھا کہ بیجنگ ایران کی خود مختاری، سیکیورٹی اور قومی وقار کے دفاع کی حمایت کرتا ہے۔

وانگ یی نے ایران کے قائم مقام وزیرِ خارجہ علی باقری کانی سے گفتگو میں مزید کہا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق جاری مذکرات کو براہِ راست دھچکا لگا۔ اس سے خطے کے امن و استحکام کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

دوسری جانب امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں خبردار کیا ہے کہ ایران اسرائیل پر جلد ہی حملہ کر سکتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو ایران کی جانب سے 'رواں ہفتے' ممکنہ بڑے حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اتوار کو گائیڈڈ میزائل آبدوز کو مشرق وسطیٰ بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ابراہام لنکن کے اسٹرائیک گروپ سے کہا کہ وہ خطے کی جانب اپنے سفر کو تیز کر دے۔

امریکہ کے محکمۂ دفاع کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے ایک بیان میں کہا کہ وزیرِ دفاع آسٹن نے اتوار کو اپنے اسرائیلی ہم منصب یوو گیلنٹ سے گفتگو کی ہے اور امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کے عزم کا اعادہ کیا۔

واضح رہے کہ خطے میں یہ کشیدگی ایسے موقع پر بڑھ رہی ہے جب غزہ میں جنگ کا گیارھواں ماہ جاری ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔

حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔

حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 100 سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کی عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق سو کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ ممکنہ طور پر 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہے۔

اسرائیل نے حماس کے حملے کے فوری بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور بمباری شروع کر دی تھی۔

حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 40 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG