|
ویب ڈیسک _ امریکہ کی الیکٹرک کاریں بنانے والی کمپنی ’ٹیسلا‘ کے مالک ایلون مسک نے اپریل 2016 میں بھارت کے شہریوں کے لیے اعلان کیا تھا کہ وہ ٹیسلا ماڈل تھری کے پیشگی آرڈر دے سکتے ہیں۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپ ’گو-کی‘ کے بانی اور سی ای او ویشال گوندل نے 2016 میں ہی ٹیسلا 'ماڈل تھری' کے پری آرڈر کے لیے ایک ہزار ڈالر جمع کرا دیے تھے۔
لیکن ویشال کی طرح کئی لوگوں کی جانب سے رقم جمع کرانے کے باوجود ٹیسلا کی اعلان کردہ الیکٹرک گاڑی کبھی بھارت نہیں پہنچی۔
ویشال گوندل سمیت کوئی بھی 2016 میں یہ نہیں جانتا تھا کہ ٹیسلا کی کار کی مجموعی مالیت کیا ہوگی اور امریکہ کی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی بھارت میں کب اس گاڑی کو لانچ کرے گی۔
البتہ ایلون مسک کے مداح ٹیسلا 'ماڈل تھری' کی بھارت آمد کے لیے پر جوش تھے لیکن ٹیسلا کی جانب سے بھارت میں ماڈل تھری کی لانچ کے ابتدائی اعلان کو آٹھ برس ہونے والے ہیں۔ اس دوران گاڑیاں بنانے والی دیگر کمپنیوں نے اپنی الیکٹرک گاڑیاں بھارت میں متعارف کرا دی ہیں۔ لیکن ٹیسلا اب تک ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ویشال گوندل کو جب یہ نظر آیا کہ کئی برس گزرنے کے باوجود ٹیسلا بھارت میں اپنی الیکٹرک گاڑیاں متعارف نہیں کرا سکی تو انہوں جرمن کمپنی ’آڈی‘ کی الیکٹرک گاڑی خرید لی۔
ویشال نے اپنے ایک دوست کی مدد سے ٹیسلا کے بھارت میں سیلز مینیجر سے رابطہ کیا اور پری آرڈر کے لیے جمع کرائے گئے ایک ہزار ڈالر جنوری 2023 میں واپس لے لیے۔
چین اور امریکہ کے بعد بھارت دنیا کی تیسری بڑی آٹو مارکیٹ ہے جہاں مالی سالی 24-2023 میں لگ بھگ 50 لاکھ گاڑیاں فروخت کی گئیں۔
بھارت کا معاملہ دیگر ممالک کے مقابلے میں منفرد بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت میں گاڑیوں کی کم قیمت ہے۔
امریکہ میں سال 2023 میں فروخت کی جانے والی گاڑیوں کی اوسط قیمت لگ بھگ 47 ہزار ڈالر (لگ بھگ 40 لاکھ بھارتی روپے) تھی جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت میں 2023 میں فروخت کی گئی گاڑیوں کی اوسط قیمت 14 ہزار ڈالر (لگ بھگ 12 لاکھ بھارتی روپے) تھی۔
اسی طرح امریکہ میں ٹیسلا کی 'ماڈل تھری' گاڑی کی قیمت لگ بھگ 40 ہزار ڈالر (لگ بھگ 34 لاکھ بھارتی روپے) ہے۔ بھارت میں اس قیمت میں ایک اچھی لگژری گاڑی خریدی جا سکتی اور اس کے ساتھ ساتھ خریدار گاڑی لینے کے بعد اس کی بہترین سروس کا تقاضا بھی کر سکتا ہے۔
ویشال گوندل نے ’اے پی‘ سے گفتگو میں کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ٹیسلا ٹیکنالوجی کی ایک بہترین کمپنی ہو۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ لگژری گاڑی فروخت کیسے کی جاتی ہے۔
بھارت میں لگژری گاڑیاں فروخت کرنے والی کمپنیاں اب الیکٹرک گاڑیاں بھی صارفین کے لیے پیش کر رہی ہیں۔
ہیمانت سوتھر ممبئی میں ایک ڈیزائننگ اسٹوڈیو کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے بھی ویشال کی طرح اپریل 2016 میں ٹیسلا کی 'ماڈل تھری' کی بکنگ کرائی تھی اور وہ بھی جمع کرائی گئی ایک ہزار ڈالر کی رقم 2023 میں واپس لے چکے ہیں۔
پیمانت کے بقول انہیں کم از کم اب ایسا نہیں لگتا کہ ٹیسلا بھارت کی سڑکوں پر چلنے والی دیگر لگژری الیکٹرک گاڑیوں کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں شامل ہو سکتی ہے۔
بھارت میں لگژری گاڑیاں فروخت کرنے والی کمپنیوں نے بھی الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنا شروع کر دی ہیں۔
بھارت نے ایسی کمپنیوں کے لیے مارچ 2024 میں درآمدی ڈیوٹی کم کر کے 15 فی صد کر دی ہے جو آئندہ تین برس میں بھارت میں اپنا پیداواری پلانٹ لگانے کی یقین دہائی کرائیں۔ اس سے قبل درآمدی ڈیوٹی 70 سے 100 فی صد عائد تھی۔
حکام نے یہ ڈیوٹی 35 ہزار ڈالرز سے کم قیمت گاڑیوں پر کم کی ہے۔ اس سے زائد قیمت کی گاڑیوں پر یہ ڈیوٹی عائد ہے۔
حکومت نے درآمدی ڈیوٹی اس طرح کم کی ہے کہ بھارت کی مقامی کمپنیوں مہیندرا اور سوزوکی ماروتی کو اس سے نقصان نہ ہو۔
اس سے قبل 2019 میں ایلون مسک نے درآمدی ڈیوٹی کی وجہ سے بھارت میں بننے والی ٹیسلا کی الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتیں دو گنا ہونے کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
البتہ ٹیسلا کی الیکٹرک گاڑیاں قابلِ خرید بنانے کے لیے امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ رواں برس اپریل میں ایلون مسک بھارت میں ٹیسلا کی فیکٹری لگانے کا اعلان کریں گے۔ لیکن انہوں نے عین موقع پر یہ کہہ کر بھارت کا دورہ ملتوی کر دیا کہ انہیں کمپنی کی انتہائی اہم ذمہ داریوں کا سامنا ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق ٹیسلا نے اس حوالے سے ای میل کے جواب میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں بھارت سمیت سب جگہ گزشتہ پانچ برس میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ٹیسلا نے بھی امریکہ کے ساتھ ساتھ چین اور یورپی ملک جرمنی میں بڑی فیکٹریاں بنا لی ہیں۔ لیکن اس کی گاڑیوں کی فروخت سست ہو گئی ہے۔
ٹیسلا کا الیکٹرک سائبر ٹرک بھی دنیا کی دیگر مارکیٹوں میں صارفین کے لیے امریکہ کی طرح دستیاب نہیں۔
امریکہ کے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن میں جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق ٹیسلا سالانہ 23 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں بنانے کی استعداد رکھنے والی کمپنی ہے۔ سال 2023 میں اس کی الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار میں لگ بھگ 35 فی صد اضافہ ہوا جس کے بعد اس نے مجموعی طور ہر 18 لاکھ 50 ہزار الیکٹرک گاڑیاں فروخت کی ہیں۔
اسی طرح ٹیسلا نے 2024 کے ابتدائی چھ ماہ میں پوری دنیا میں آٹھ لاکھ 31 ہزار گاڑیاں فروخت کی ہیں۔ یہ تعداد ان اندازوں سے کئی گنا کم ہے جس کی پیش گوئی ایلون مسک نے کی تھی۔
گاڑیوں کی کمپنیوں کو کنسلٹنسی فراہم کرنے والی کمپنی ’سائنو آٹو انسائٹس‘ کے بانی تو لی کہتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑیوں کا چارم ختم ہو چکا ہے۔ پانچ سال قبل کو ایک موقع تھا اب وہ گردن کا طوق بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی دنیا میں قیادت اور بھارت جیسی تیزی سے پھیلتی مارکیٹوں کے لیے ٹیسلا کو نئی اور کم قیمت گاڑیاں بنانا ہوں گی۔ اگر کسی گاڑی کی قیمت 25 ہزار ڈالر بھی ہے تو وہ چین کی مارکیٹ میں مسابقت نہیں کر سکتی جہاں پہلے ہی مقامی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی ’بی وائی ڈی‘ صارفین کی اولین ترجیح ہے۔
بی وائی ڈی اب دیگر ممالک میں بھی سستی اور بہتر الیکٹرک گاڑیاں فراہم کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ کیوں کہ اس سے قبل بھارت جیسی مارکیٹس میں ٹیسلا کو الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی پہلی کمپنی ہونے کا فائدہ حاصل تھا۔
تو لی مزید کہتے ہیں کہ اب ٹیسلا جب بھی کسی نئی مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیاں صارفین کے لیے پیش کرے گی تو اسے بی وائی ڈی کی الیکٹرک گاڑیاں وہاں پہلے سے موجود نظر آئیں گی۔
بھارتی مارکیٹ میں سوزوکی ماروتی کا راج
بھارت کی ترقی کرتی ہوئی آٹو مارکیٹ میں مقامی کارساز کمپنی سوزوکی ماروتی کو غلبہ حاصل ہے۔ اس کے بعد جنوبی کوریا کی ہنڈائی موٹرز اور ٹاٹا موٹرز ہیں۔
گاڑیوں کی مارکیٹ پر تحقیق کرنے والے ادارے ’کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ‘ کے مطابق بھارت میں 2023 میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت دگنی ہو گئی ہے۔ لیکن اب بھی یہ مجموعی طور پر فروخت ہونے والی گاڑیوں کے صرف دو فی صد کے برابر ہے۔
بھارت میں فروخت کی گئی الیکٹرک گاڑیوں میں لگ بھگ دو تہائی مقامی کارساز ’مہندرا اینڈ مہندرا‘ اور چین کی بی وائی ڈی ہی ہیں۔
’کاؤنٹر پوائنٹ ریسرچ‘ کے مطابق بی وائی ڈی نے 2008 میں بھارت میں بیٹریاں بنانے کا آغاز کیا تھا۔ یہ بھارت میں صرف دو ماڈل کی الیکٹرک گاڑیاں فروخت کر رہی ہے۔ لیکن اس کا شمار ملک کے بہترین پانچ برانڈز میں کیا جا رہا ہے۔
بی وائی ڈی کی چھ سیٹر والی ’ای سکس‘ ایم پی وی اور ’آٹو تھری‘ ایس یو وی بھارت میں دستیاب ہے جب کہ اس نے مارچ 2024 میں اپنی تیسری گاڑی ’بی وائی ٹی سیل‘ متعارف کرائی ہے۔
بھارت کے گاڑیوں سے متعلق میگزین ’آٹو ایکس‘ کے مینیجنگ ایڈیٹر ایشان راگھو کہتے ہیں کہ بھارت اس وقت الیکٹرک گاڑیوں کی نسبتاََ چھوٹی لیکن گنجان مارکیٹ ہے جس میں صارفین الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق اس وقت شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
ایشان راگھو کے مطابق صارفین کو راغب کرنے کے لیے ٹیسلا کو سستی الیکٹرک گاڑیاں پیش کرنا ہوں گی جس کی قیمت لگ بھگ 30 ہزار ڈالر کے قریب ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ٹیسلا بھارت میں ہی گاڑیاں بنانا شروع کرے۔
ٹیسلا اگر بھارت میں تین برس میں فیکٹری لگانے کی حامی بھر کر گاڑیوں کی فروخت شروع کر بھی دیتی ہے تو اس کی قیمت ان لگژری گاڑیوں کی قیمت کے مقابلے میں زیادہ ہوگی جو پہلے سے بھارت میں موجود ہیں جن میں مرسڈیز اور آڈی جیسے بڑے برانڈ شامل ہیں۔ یہ برانڈز بھارت میں دہائیوں سے موجود ہیں اور ان کی ایک مضبوط ڈیلر شپ کے ساتھ ساتھ سروس نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے۔
امریکہ کی گاڑیوں پر ریسرچ کرنے والے ادارے ’کاکس آٹو موٹیو‘ سے تعلق رکھنے والے میتھیو ڈیگن کہتے ہیں کہ ٹیسلا امریکہ میں صارفین کو براہِ راست گاڑیاں فروخت کرتی ہے۔ لیکن ڈیلرشپ صارفین کو لگژری گاڑی کا تجربہ کرنے پر آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ٹیسلا کو بھارت میں اپنی الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے بھی ایک نیٹ ورک بنانا ہوگا۔ کیوں کہ اس مارکیٹ میں الیکٹرک گاڑیاں نسبتاََ کم ہے۔
ایلون مسک نے جولائی میں ایک کانفرنس میں گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ٹیسلا اپنی فیکٹریوں میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار کی استعداد بڑھانے میں مصروف ہے اس کے ساتھ ساتھ نئی سستی گاڑیاں بنانے کا معاملہ بھی جاری ہے۔ اس چھوٹے ماڈل کی گاڑی کی قیمت لگ بھگ 25 ہزار ڈالر ہو سکتی ہے جس میں نئی جنریشن کی گاڑیوں کی کچھ خصوصیات کے ساتھ اس وقت ٹیسلا گاڑیوں میں استعمال ہونے والے بعض فیچر شامل ہوں گے۔ یہ گاڑیاں ممکنہ طور پر 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں متعارف کرا دی جائیں گی۔
دوسری جانب ٹیسلا کا بھارت میں فیکٹری لگانے کا منصوبہ تاحال واضح نہیں ہے۔
بھارت میں صنعتوں کے فروغ کی ایجنسی کے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار راجیش کمار سنگھ نے نشریاتی ادارے ’ای این بی سی‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ٹیسلا کے جس اعلیٰ عہدیدار سے بھارتی حکام بات چیت میں مصروف تھے، کمپنی نے اس کو نکال دیا ہے۔ ان کے بقول بھارت پر واضح نہیں ہے کہ ٹیسلا کیا کرنا چاہتی ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔