|
تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ 10 ماہ کی سرحد پار جھڑپوں میں اپنی فوجی صلاحیت کو بتدریج ظاہر کیا ہے، جس میں جمعے کے روز جاری کی گئی وہ ویڈیو شامل ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں زیر زمین میزائل تنصیبات دکھائی گئی ہیں۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر عسکریت پسند گروپ حماس کے دہشت گرد حملے کے بعد غزہ جنگ کی شروعات سے ہی، لبنانی شیعہ تحریک نے ،جسے ایران ہتھیار اور مالی معاونت فراہم کرتا ہے ،اتحادی حماس کی حمایت کے اظہار کے طور پر اسرائیلی فورسز کے ساتھ تقریباً روزانہ فائرنگ کا تبادلہ کیا ہے۔
گزشتہ ماہ بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے ایک اعلیٰ کمانڈر ، فواد شکر کی ہلاکت اور تہران میں ایک حملے میں، جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا حماس کے ایک سیاسی لیڈر اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد تنازعے کے شدت پکڑنے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 2006 میں ہونے والی آخری جنگ کے بعد سے اس ایران نواز عسکریت پسند گروپ نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔
جمعے کے روز اس نے ایک واضح ویڈیو جاری کی جس میں اس نے اپنے جنگجووں کو کو ایک زیر زمین تنصیب میں واقع سرنگوں سے بڑے بڑے میزائیلوں کو ٹرکوں پر لے جاتے ہوئے دکھایا۔
سیکیورٹی سے متعلق ایک مشاورتی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ اینڈ گلف ملٹری اینالیسس کے سر براہ رياض قهوجي نےکہا ہے کہ یہ حزب اللہ کی طرف سے اپنی سرنگوں کے سائز کو دکھانے والی اب تک کی سب سے واضح ویڈیو تھی۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ، اس میں پہلی بار اتنے بڑے میزائل بھی دکھائے گئے جو کہ بظاہر بیلسٹک میزائل ہو سکتے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے امکانی طور پر یہ ویڈیو اس لئے جاری کی ہےتاکہ اسرائیل کو اپنے خلاف کسی بڑی کارروائی سے روکا جا سکے ۔
بلائنڈ اسپاٹس
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل، شکر اور ہنئیہ کی ہلاکت کےبعد دفاعی طور پر اور جارحانہ طور پر ،دونوں طرح سے تیار ہے اور اپنے دفاع کا پختہ عزم رکھتا ہے۔
لبنان میں کشیدگی میں اضافے سے اجتناب کے لیے سفارتی کوششوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر کسی جنگ بندی پر آمادگی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے تاکہ کسی وسیع تر جنگ سے بچا جا سکے ۔
رياض قهوجي نے کہا کہ حزب اللہ اکتوبر سے اپنے حربوں اور ہتھیاروں کے ذخیروں کو ٹیسٹ کر رہا ہے اور اسرائیل کے ڈیفینس سسٹم میں جھول اور کمزوریوں کا بھی جائزہ لے رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گروپ نے اسرائیل کے آئرن ڈوم ائیر ڈیفینس سسٹمز کا سراغ لگانے کے لیے نگران ڈرونز استعمال کیے ہیں تاکہ انہیں کنٹرول یا تباہ کیا جا سکے ۔
تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے فضائی ڈیفینس پر دباؤ ڈالنے کے لیےکم لاگت والے اور کبھی کبھی مقامی طورپر تیار کردہ ڈرونز کا بھر پور استعمال کیا ہے ۔
گروپ نے تین ویڈیوز جاری کی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان میں ساحلی شہر حائفہ اور گولان کی ضم شدہ پہاڑیوں سمیت اسرائیلی فوج اور شمالی اسرائیل کی دوسری تنصیبات پر پرواز کرنے والے ڈرونز دکھائے گئے ہیں۔
قهوجي نے کہا کہ یہ ڈرونز،اسرائیلی ریڈارز اور سنسرز میں موجود بلائنڈاسپاٹس کا سراغ لگانے میں حزب اللہ کی مدد کرتے ہیں۔ گروپ اسرائیل کے جلد انتباہی سنسرز سے بچنے کے لیے پہاڑی راستوں کا اور ڈرونز کی نیچی پروازوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ بار بار کے حملے حزب اللہ کو اسرائیل کے ڈیفینس سسٹمز اور امکانی داخلے کے مقامات کے بارے میں زیادہ بہتر اندازہ لگانے میں مدد دیتے ہیں۔
فوجی تجزیہ کار اور ریٹائرڈ فوجی جنرل خلیل ہلاؤ کا کہنا ہے کہ ڈرونز کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیوں کہ وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کا ریڈار پرنٹ بھی بہت چھوٹا ہوتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ حزب اللہ کے ٹینک شکن میزائل بھی نمایاں نقصان پہنچا سکتے ہیں کیوں کہ آئیرن ڈوم سسٹم باالواسطہ فائرنگ ، مثلاً راکٹوں یا میزائیلوں کو راستے میں روک سکتا ہے لیکن وہ کسی براہ راست حملے کےلئےکارگر نہیں ہوتا۔
حزب اللہ نے بار ہا کہا ہے کہ صرف غزہ جنگ بندی کا معاہدہ ہی اس کے حملوں کو روک سکتا ہے ۔
قهوجي نے یہ بھی کہا کہ حزب اللہ اسرائیل کو کسی مکمل جنگ پر اکسانے سے بچنا چاہتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ تحریک اسرائیلی رہنماؤں یا فوجی کمانڈروں کو قتل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ اس کی واحد اسٹریٹیجی یہ ہے کہ اپنی مخالفت کے اظہار کے لیے مزید میزائل فائر کرے اور جنگی شعلہ بیانی میں اضافہ کیا جائے ۔
اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، اکتوبر کے بعد سے تشدد میں لبنان میں تقریباً 570 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر حزب اللہ کے جنگجو تھے لیکن ان میں کم از کم 118 شہری شامل ہیں۔
فوج کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیل کی جانب، بشمول گولان کی پہاڑیوں میں، 22 فوجی اور 26 عام شہری مارے گئے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم