|
لاہور _ بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے 23 افراد میں سے بیشتر کا تعلق صوبۂ پنجاب سے ہے۔ جن کی اکثریت روزگار کے سلسلے میں گئی تھی لیکن اب ان کی لاشیں گھروں کو لائی جا رہی ہیں۔
اِنہی متاثرہ افراد میں پنجاب کے ضلع لیہ سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائی ہیں۔ضمیر اور مرتضیٰ کوئٹہ میں سبزی اور فروٹ کا کاروبار کرتے تھے جنہیں پیر کو دہشت گردوں نے ٹرک سے اتار کر شناخت کے بعد قتل کیا۔
مقتول ضمیر کے چچا زاد بھائی محمد محسن کے مطابق اُن کے دونوں کزن ایک ماہ سے گھر نہیں آئے تھے لیکن اب دونوں کی لاشیں گھر آ رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محسن نے بتایا کہ ضمیر کے تین بچے یتیم ہوئے ہیں جب کہ مرتضٰی کی چند ہی دنوں بعد شادی ہونے والی تھی۔
محسن کے مطابق ضمیر نے واقعے سے ایک روز قبل ہی اہلیہ کو فون کر کے بتایا تھا کہ وہ ایک مہینے سے گھر نہیں آیا۔ "یہ ایک چکر لے آؤں اُس کے بعد کچھ دِن گھر رہوں گا۔" لیکن اسے کیا پتا تھا کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے گھر آ رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہر باپ کی طرح ضمیر کے بچوں کو ایک ماہ بعد اپنے باپ سے ملنے کا انتظار تھا۔ جو اکثر و بیشتر کوئٹہ سے اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ لے آتا تھا۔
پیر کو بلوچستان کے علاقے کوئٹہ، گوادر، قلات، مستونگ، لسبیلہ اور سبی سمیت بعض دیگر علاقوں میں سیکیورٹی اہلکاروں پر حملوں اور فائرنگ کے مختلف واقعات میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اقوامِ متحدہ نے ان حملوں اور ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کے خلاف حملے ناقابلِ قبول ہیں۔ حکومتِ پاکستان واقعات کی تحقیقات کرائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جائے۔
موسیٰ خیل میں مارے جانے والے سگے بھائیوں کے کزن محسن کے مطابق مقتول ضمیر اور ضمیر گزشتہ پانچ سال سے کوئٹہ میں فروٹ اور سبزی کا کاروبار کر رہے تھے اور ان کا خاندان لیہ میں سرکاری زمین پر ٹوٹے ہوئے مکان میں مقیم ہے۔
محسن کے مطابق مرتضٰی کی چند دِنوں بعد شادی طے ہو چکی تھی لیکن قسمت نے گھر میں شادی کی خوشیوں کے بجائے نہ ختم ہونے والا غم دے دیا ہے۔
لیہ میں چار افراد کے قتل کی خبر سے پورا علاقہ سوگوار ہے۔ کاروباری برادری نے سوگ کے طور پر اتوار کو اپنے کاروبار بند رکھے۔
موسیٰ خیل میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد میں سے چار کا تعلق ضلع لیہ، تین کا ملتان جب کہ خانیوال اور وہاڑی کے دو، دو افراد شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے دیگر افراد کا تعلق لاہور، مظفرگڑھ، شجاع آباد، فیصل آباد، سرگودھا، اور ساہیوال سے ہے۔
غلام جیلانی کا تعلق فیصل آباد کے علاقے ڈجکوٹ سے ہے جنہیں دہشت گردوں نے سات سالہ بیٹے کے سامنے فائرنگ کر کے مار ڈالا۔
غلام جیلانی پیشے کے اعتبار سے تاجر ہیں جو اپنی بیٹی سے ملنے کوئٹہ گئے تھے اور واپسی پر دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ ان کی ہلاکت پر دجکوٹ کے دکان داروں نے اتوار کو احتجاجاً اپنے کاروبار بند رکھے اور شہر بھر میں ہڑتال بھی کی۔
غلام جیلانی کے بڑے بیٹے انس جیلانی کے مطابق ان کے والد بہن سے ملنے جا رہے تھے تھے تو ان کے چھوٹے بھائی نے بھی جانے کی ضد کی جس پر والد اسے بھی ساتھ لے گئے۔
انس کے مطابق دہشت گردوں نے ان کے والد کو تو قتل کر دیا لیکن ان کا بھائی محفوظ ہے جسے سیکیورٹی اہلکاروں نے واقعے کے بعد اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انس نے بتایا کہ اپنی آںکھوں کے سامنے والد کی موت دیکھ کر چھوٹا بھائی خوف زدہ ہو گیا تھا اور وہ سیکیورٹی اہلکاروں سے بھی کوئی بات نہیں کر پا رہا تھا۔
انس جیلانی کا کہنا تھا "کم سن بچے کے سامنے اُس کے والد کو مارنا انسان دشمنی ہے۔"
انس کے مطابق اُن کے والد کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ وہ ایک ہمدرد اور تاجر دوست شخصیت تھے۔ شہر بھر کے تاجر اُن کی عزت کرتے تھے۔
بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے اور اسے 'آپریشن ہیروف' کا نام دیا ہے۔
صوبے میں دہشت گردی کے واقعات پر وزیرِ اعلٰی سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ کسی بلوچ نے کسی پنجابی کو نہیں مارا بلکہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے۔
کوئٹہ میں پیر کو نیوز کانفرنس کے دوران سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گرد شرپسند ہیں اور وہ زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں جنہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں بیرونی عناصر ملوث ہیں۔ حملہ ایک دم سے نہیں ہوا بلکہ اِس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ حملہ آور ناراض بلوچ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں جنہیں بھرپور جواب دیا جائے گا۔
فورم