رسائی کے لنکس

کیاچین بحری کارروائیوں سے انڈو پیسیفک میں امریکی عزم کو جانچ رہا ہے؟


 31 اگست 2024 کو متنازعہ جنوبی بحیرہ چین میں سبینا شوال کے قریب ایک چینی کوسٹ گارڈ جہاز اور فلپائنی کوسٹ گارڈ کے جہاز سے ٹکرایا۔ یہ تصویر فلپائنی کوسٹ گارڈ کے ذریعہ فراہم کردہ ویڈیو سے لی گئی تھی۔
31 اگست 2024 کو متنازعہ جنوبی بحیرہ چین میں سبینا شوال کے قریب ایک چینی کوسٹ گارڈ جہاز اور فلپائنی کوسٹ گارڈ کے جہاز سے ٹکرایا۔ یہ تصویر فلپائنی کوسٹ گارڈ کے ذریعہ فراہم کردہ ویڈیو سے لی گئی تھی۔

چین نے فلپائن، جاپان اور تائیوان کے قریب حالیہ سمندری اور فضائی کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے جسے مبصرین بیجنگ کی طرف سے امریکہ کی انڈو پیسیفک خطے میں اپنےاتحادیوں کی حمایت کے عزم کو جانچنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ماہرین نے نوٹ کیا ہے کہ چین کی خطے میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹوکیو اور واشنگٹن انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔

جاپان میں بین الاقوامی کرسچن یونیورسٹی میں علاقائی سلامتی کے ماہر سٹیفن ناگی کہتے ہیں کہ اس تناظر میں چین کو وسیع تر خطے کے لیے امریکہ کے عزم کو جانچنے کا ایک موقع نظر آ رہا ہے۔

بقول انکے"لہٰذا، وہ واشنگٹن کو یہ اشارہ دے رہا ہے کہ اگر وہ (امریکہ) فلپائن اور بحیرہ جنوبی چین میں دیگر تعلقات میں مزید سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بیجنگ اس کے حفاظتی ڈھانچے کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کرے گا اور ایک ہی وقت میں بہت سے معاملات کو سنبھالنے کی اس کی صلاحیت کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کرے گا۔"

گزشتہ ایک ماہ کے دوران چینی اور فلپائنی کوسٹ گارڈز کےجہازوں کے بحیرہ جنوبی چین میں سبینا شوال اقتصادی علاقے کے قریب دو بار آپس میں ٹکرانے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

واضح رہے کہ سبینا شوال فلپائن کے خصوصی اقتصادی زون کے اندر واقع ہے لیکن بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ جزوی طور پر ڈوبا ہوا یہ مقام اس کا حصہ ہے۔

دو واقعات میں تازہ ترین تصادم 31 اگست کو پیش آیا۔ چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی اور فلپائنی کوسٹ گارڈ دونوں کی طرف سے اس تصادم کی جاری کی گئی ویڈیوز میں ایک چینی کوسٹ گارڈ جہاز کو فلپائنی جہاز سے ٹکراتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر "جان بوجھ کر" ٹکرانے کا الزام لگایا۔

ادھر جاپان کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ایک چینی فوجی طیارے نے 26 اگست کو پہلی بار اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور 31 اگست کو ایک چینی سروے جہاز جاپان کے جنوب مغربی علاقے کے پانیوں میں گھس آیا۔

ٹوکیو نے اس دراندازی کے سلسلے کو "ناقابل قبول" قرار دیتے ہوئے جاپان میں چینی سفارت خانے میں باضابطہ شکایت درج کی ہے۔

اس کے جواب میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ چینی سروے جہاز کی سرگرمی "مکمل طور پر قانونی اور جائز" تھی۔

اس کے علاوہ چین نے خطے میں 26 اگست سے تائیوان کے آس پاس کے علاقوں میں کم از کم 172 فوجی طیارے اور 87 بحری جہاز تعینات کیے ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق ان تینوں مقامات پر چین کی مشترکہ سرگرمیوں کا مقصد ہند-بحرالکاہل خطے میں بیجنگ کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھانے والے حریفوں کو سزا دینا ہے۔

اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار نیشنل سیکیورٹی انوویشن کے رے پاول نے وی او اے کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ چین کا خیال ہے کہ اس کے پاس زیادہ طاقت ہے اور اسے غلبہ پانے کی صلاحیت بھی حاصل ہے۔

وہ کہتے ہیں لہذا ان سرگرمیوں سے وہ چینی تسلط قبول نہ کرنے والے ملکوں کو مثال بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔


انتباہ ناکافی ہیں

جمہوری ممالک امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور یورپی یونین نے سبینا شوال کے قریب چینی اور فلپائنی جہازوں کے درمیان تصادم کے بعد چین کی سمندری جارحیت کی مذمت کی ہے۔

تاہم، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوری ملکوں کی مذمت کے باوجود چینی جارحیت ظاہر کرتی ہے کہ بیجنگ کو یہ بیانات جنوبی بحیرہ چین میں اپنے موقف کو نرم کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سنگاپور کے ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل میں میری ٹائم سیکورٹی کے ماہر کولن کوہ نے وی او اے کو بتایا کہ چین نے گزشتہ ایک سال کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تمام انتباہ نظر انداز کیے ہیں اور وہ بحیرہ جنوبی چین میں اپنی من مانیاں کررہا ہے۔

ماہرین کوہ اور ناگی دونوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو انڈو پیسیفک میں چین کی مسلسل سمندری جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید مستحکم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ان ماہرین کے مطابق ایسے اقدامات میں علاقائی پانیوں کے ذریعے مزید ٹرانزٹ کا انعقاد، خطے میں بحری جہازوں کی موجودگی میں اضافہ اور امریکہ اور فلپائن کے درمیان باہمی دفاعی معاہدے پر مشاورت شروع کرنا شامل ہونے چاہیں۔ ناگی کے مطابق ان اقدامات میں پابندیاں عائد کرنا بھی شامل ہونا چاہیے۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت خطے میں دو جرمن جنگی جہاز جنوبی کوریا سے فلپائن جاتے ہوئے اپنی آمدورفت کے دوران آبنائے تائیوان سے ممکنہ طور پر گزرنے کے احکامات کا انتظار کر رہے ہیں۔

گزشتہ سال کے آغاز سے اب تک امریکی بحری جہازوں نے آبنائے تائیوان میں بین الاقوامی پانیوں کے ذریعے کم از کم چار بار ٹرانزٹ کیا ہے۔ یہ آبنائے تائیوان اور چین کے جنوبی صوبہ فوجیان کے درمیان 180 کلومیٹر چوڑا پانی ہے۔ امریکہ کے جہازوں کے علاوہ کینیڈا اور ہالینڈ کے بحری جہاز بھی اس سال آبنائے سے گزر چکے ہیں۔

امریکہ نے حالیہ ہفتوں میں بحیرہ جنوبی چین میں متنازعہ چٹانی مقام پر فلپائن کے دوبارہ سپلائی کے مشن کی حمایت کرنے کے لیے اپنی آمادگی کا اعادہ کیا ہے۔

امریکہ نے بحیرہ ہند۔بحرالکاہل میں فضا سے ہوا میں انتہائی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تعینات کیے ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چین کی فضائی رسائی کی طاقت کو زائل کر سکتے ہے۔

اس تناظر میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ واضح نہیں ہے کہ بیجنگ کب تک اپنی سمندری کارروائیوں کی شدت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔

سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ایان چونگ نے وی او اے کو بتایا کہ چین اب بھی دفاع پر زیادہ خرچ کرنے اور اپنے بحری دعوؤں پر زور دینے کا متحمل ہے۔

ان کے مطابق یہ ایک کھلا سوال ہے کہ بیجنگ مستقبل میں کہاں تک ایسا کر سکتا ہیں کیونکہ چین کی معیشت پختہ ہو رہی ہے اور اس کی آبادی اس معیشت پر بوجھ بن رہی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے گزشتہ ہفتے رپورٹ دی تھی کہ چین نے سال 2023 میں 15ارب ڈالر، یا اپنے دفاعی بجٹ کا 7 فیصد، شمال میں اپنے ساحل سے دور پانیوں میں اور آبنائے تائیوان، بحیرہ جنوبی چین اور مغربی علاقوں میں فوجی سرگرمیوں پر خرچ کیاتھا۔ یہ اعداد و شمار تائیوان کی مسلح افواج کی جانب سے کی گئی پہلے کی غیر مطبوعہ داخلی تحقیق پر مبنی تھے۔

جاپان کی حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اس ماہ کے آخر میں اپنے نئے رہنما کا انتخاب کرنے والی ہے اور پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات اپنے آخری ہفتوں میں داخل ہو رہے ہیں۔

اس تناظر میں اسٹینفورڈ کے ماہر پاول کو توقع ہے کہ چین آنے والے مہینوں میں انڈو پیسفک میں سمندری جارحیت کی اسی سطح کو برقرار رکھے گا۔

پاول نے وی او اے کو بتایا کہ ایسے میں جبکہ جمہوری حکومتیں انتخابات پر مرکوزہیں، چین کو اپنے مقاصد آگے بڑھانے کے لیے ایک راستہ نظر آرہا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہے گا۔"

وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو آئندہ چند مہینوں میں انڈو پیسیفک خطے میں بیجنگ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔

تحریر: ولیئم یانگ، وی او اے

فورم

XS
SM
MD
LG