|
بھارتی ریاست جو گزشتہ ماہ ایک زیر تربیت خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے وحشیانہ واقعے سے ہل کر رہ گئی تھی، اس جرم کے مرتکب افراد کے لیے عمر قید اور سزائے موت سمیت سخت ترین سزائیں متعارف کرانے کے لئے تیار ہے ۔
مغربی بنگال کی ریاستی اسمبلی نے منگل کے روز ،اپارجیتا وومن اینڈ چائلڈ بل کی متفقہ طور پر منظوری دی جس کے تحت ریپ کے مرتکب افراد کے لیے وفاقی قانون کے تحت فی الحال مقرر کردہ دس سال تک کی قید کو بڑھا کر یا تو عمر قید یا سزائے موت میں تبدیل کر دیا گیاہے ۔ اس میں ریپ کے بارے میں تحقیقات کو تیز رفتار کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
اس بل کو قانون بننے سے پہلے صدر کی لازمی منظور ی درکار ہے ۔
اپارجیتا وومن اینڈ چائلڈ بل کیوں سامنے آیا؟
یہ بل گزشتہ ماہ شہر کے ایک اسپتال میں ایک 31 سالہ ڈاکٹر کے خلاف پر تشدد حملے کی وجہ سے میڈیکل شعبے میں پیدا ہونے والے اشتعال کے دوران منظور کیا گیا۔
ریاستی دارالحکومت کولکتہ میں مشتعل ڈاکٹروں نے تین ہفتوں سے ڈاکٹروں کی حفاظت اور متاثرہ خاتون ڈاکٹر کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔اسپتال میں کام کرنے والے ایک پولیس رضاکار کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس پر جرم کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کیا صرف سخت قوانین ہی ریپ کے واقعات روک سکیں گے؟
صحت کے ماہرین اور اور سر گرم کارکنوں نے ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کی مذمت کے لیے 3 ستمبر 2024 کو کولکتہ کی ایک سڑک کے ساتھ بینرز کو تھامے ایک مظاہرے کے دوران ایک طویل انسانی زنجیر بناتے ہوئے زورو شور سے نعرے لگائے ۔
مغربی بنگال حکومت نے کہا ہے کہ اس بل کا مقصد خواتین اور بچوں کے تحفظ میں اضافہ اور ان کے لیے محفوظ ماحول کی تشکیل ہے.
لیکن سر گرم کارکن یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا صرف سخت قوانین ہی خواتین کے خلاف ریپ کے واقعات کو روکنے میں مدد کر سکتے ہیں، جن کی تعداد اس کے باوجود بہت زیادہ رہی ہے کہ بھارت نے گزشتہ دس برسوں میں اس جرم کے مرتکب افراد کے لیے سزاؤں میں اضافہ کیا ہے
ریپ کی روک تھام میں درپیش رکاوٹیں
وکلاء اور حقوق نسواں کے کارکنوں کے مطابق ایک سست رفتار نظام انصاف والے ملک میں سخت سزا بھی مجرموں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرے گی۔
ایک خاتون وکیل اور سماجی کارکن ابھا سنگھ نے کہا کہ "قانون کا خوف بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مقدمات کے نتیجے میں سزائیں شاذو نادر ہی دی جاتی ہیں۔ ریپ کے مقدمات میں سزا کی شرح صرف 28 فیصد ہے۔"
انہوں نے کہا کہ پولیس کی تفتیش میں اکثر رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے ۔ "ہمارے پاس بہت کم فرانزک لیبارٹریز ہیں، اور بعض اوقات پولیس کے پاس عملے کی کمی ہوتی ہے ۔پھرگواہوں کو موثر تحفظ حاصل نہیں ہے اس لیے وہ اکثر منحرف ہو جاتے ہیں۔ لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیاں محفوظ رہیں تو ہمیں سب سے پہلے انصاف کے نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
خواتین کے حقوق کے علمبردار نشاندہی کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے نئی دہلی میں ایک چلتی بس میں 23 سالہ خاتون کے اجتماعی زیادتی اور قتل کے بعد 2013 میں فوجداری قوانین میں بڑی تبدیلیاں کیں۔
پانچ سال بعد، ایک 8 سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے نتیجے میں مزید سخت سزائیں دی گئیں۔ حکومت نے 16 سال سے کم عمر لڑکی کے ساتھ زیادتی پر کم از کم قید کی سزا کو 10 سے بڑھا کر 20 سال اور اس سے بڑی عمر کی خاتون کے ساتھ زیادتی کی سزا کو 7 سے بڑھا کر 10 سال کر دیا۔
لیکن اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کا خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات پر بہت کم اثر پڑا۔
نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق ، سال 2012 میں زیادتی کے تقریباً 25 ہزار واقعات ریکارڈ کیے گئے، دس سال بعد، 2022 میں یہ تعداد 31،000 سے زیادہ تھی۔
فورم