|
اسلام آباد _ پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہفتے کو متوقع جوڈیشل پیکج (آئینی ترمیمی بل) منظوری کے لیے پیش نہیں کیا جا سکا اور اب معاملہ اتوار تک لٹک گیا ہے۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کے ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم نے حکومتی اتحادی جماعتوں کے اراکین کو عشائیے پر بھی مدعو کر لیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت تاریخ کی بدترین آئینی ترامیم کرنے جا رہی ہے اور عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے پارلیمانی روایات کو پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ حکومت اپنے اتحادیوں سے بھی آئینی ترامیم کا مسودہ چھپا رہی ہے جب کہ حکومت کے پاس آئینی ترامیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو اغوا کر کے اور دباؤ میں لا کر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کے خلاف پارلیمنٹ میں مزاحمت کی جائے گی۔
آئینی ترمیمی بل کیا ہے؟
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے تو آئینی ترمیمی بل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین برس کے اضافے سے متعلق تھا مگر پیپلز پارٹی خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اختیار کیے گئے مؤقف کے باعث اب آئینی ترمیمی بل کو وسیع کیا جا رہا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن آئینی کورٹ کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لیے آئینی ترمیمی بل میں آئینی کورٹ کے قیام کی تجویز شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاقِ جمہوریت معاہدے میں آئینی معاملات کے لیے آئینی کورٹ کے قیام کی شق بھی شامل تھی۔
آئینی عدالت کے لیے الگ چیف جسٹس کی تعیناتی کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔ نئی عدالت کا مقصد آئینی مقدمات اور مفادِ عامہ کے مقدمات کو الگ الگ کر کے عدالت عظمیٰ پر بوجھ کم کرنا بتایا جاتا ہے۔
آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کو بااختیار بنانے کے لیے ترامیم بھی شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئینی عدالت میں آئین کے آرٹیکل 184، 185 اور 186 سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہو گی، آئینی عدالت کی تشکیل میں چاروں صوبوں اور وفاق کے ججز کی نمائندگی کی تجویز بھی زیر غور ہے، آئینی عدالت میں صوبوں کی طرف سے آئین کی تشریح کے معاملات بھی زیرِ غور آسکیں گے۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی کی موجودہ بنیاد کو تبدیل کر کے نیا طریقہ کار لانے کی تجویز ہے۔ جس کے تحت چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے تین ججز کے نام سامنے آئیں گے جن میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس مقرر کرنے کا اختیار پارلیمانی کمیٹی کو ہوگا۔
مذکورہ تجاویز پر اتحادیوں خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن سے مشاورت کی جارہی ہے۔ اب تک جن نکات پر اتفاق ہوا ہے اس کی روشنی میں آئینی ترمیمی بل کو حتمی صورت دے کر پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔
آئینی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں کتنے اراکین درکار ہیں؟
آئینی ماہرین کے مطابق آئینی ترمیم کا بل دونوں ایوانوں سے علیحدہ علیحدہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرانا لازم ہوتا ہے۔ حکومت کو سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ میں حکمران اتحاد کے اراکین کی مجموعی تعداد 55 ہے۔ جس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور ایم کیو ایم کے 3 ارکان شامل ہیں۔
سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو مزید 10 ووٹ درکار ہیں۔ اگر حکومت اے این پی کے تین، نیشنل پارٹی کے ایک اور مسلم لیگ ق کے ایک رکن کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائے تو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے باقی پانج ارکان درکار ہوں گے۔
حکومت جمعیت علمائے اسلام ف کے پانچ ارکان کی حمایت حاصل کر کے ایوان میں درکار ووٹ پورے کر سکتی ہے۔ مگر جے یو آئی نے تاحال اپنے ووٹ آئینی ترامیم کے حق میں ڈالنے کا فیصلہ نہیں کیا۔
اسی طرح قومی اسمبلی میں اس وقت حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے 111، پیپلز پارٹی کے 69، ایم کیو ایم 22، استحکامِ پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے چار، چار جب کہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن ہے۔ سب ملا کر یہ تعداد 213 بنتی ہے۔ اس طرح حکومت کو قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے مزید 12 درکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر جے یو آئی کی حمایت حاصل کر بھی لی جائے تو پھر بھی حکومت دو تہائی کے لیے درکار عدد پورے نہیں کر سکتی۔
قومی اسمبلی میں جے یو آئی ارکان کی تعداد 8 ہے۔ اس کی حمایت حاصل کرنے کے بعد بھی حکومت کو مزید چار ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔
اپوزیشن نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے آٹھ، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ایک ایک رکن ہیں۔ دوتہائی اکثریت پورے کرنے کے لیے حکومت کو چار آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنا ہوگی جو پی ٹی آئی کی حمایت سے جیت کر آئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق آزاد ارکان سے حمایت حاصل کرنے سے حکومت پر سیاسی طور پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگ سکتا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ کرنے والے اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے جن ارکان کو آزاد سمجھا جا رہا ہے وہ پی ٹی آئی کے مطابق سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے متعلق فیصلے کے تحت پی ٹی آئی میں تحریری طور شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور اس بارے میں تحریری طور پر الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جا چکا ہے۔
جے یو آئی (ف) کی اہمیت بڑھ گئی
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے جے یو آئی ف کے ووٹ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمٰن آئینی ترمیم کی حمایت کردیں تو حکومت سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گی۔
البتہ قومی اسمبلی میں جے یو آئی (ف) کی حمایت ملنے کے باوجود حکومت کو دو تہائی اکثریت کے لیے مزید چار ووٹ درکار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن سے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف چند روز قبل علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
ہفتے کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے کسی فرد واحد کی مدت میں توسیع کے لیے ترمیم کی حمایت سے انکار کیا ہے۔ یہی بات مولانا فضل الرحمٰن قومی اسمبلی کے فلور پر بھی کہ چکے ہیں۔
تاہم جے یو آئی (ف) کے امیر وزیرِ اعظم سے کہہ چکے ہیں کہ ترمیمی مسودہ آ جائے تو اسے دیکھ کر حمایت یا مخالفت سے آگاہ کریں گے۔
فورم