|
اسلام آباد -- پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 16 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت نے ایک بار پھر ملک میں امن و امان کی صورتِ حال پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 16 سیکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ پاکستان کی فوج نے جوابی کارروائی میں آٹھ دہشت گردوں کو مارنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
اس حملے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے جس میں سیکیورٹی فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درجنوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اتوار کو وانا میں سیکیورٹی اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا عزم دہرایا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور سیکیورٹی فورسز کسی بھی قیمت پر ملک میں امن قائم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
'پاکستان افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف قائل نہیں کر سکا'
پشاور یونی ورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ دہشت گردی سے متعلق پاکستان کی پالیسی میں ابہام ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ بھی وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان تاحال افغان طالبان کو قائل نہیں کر سکا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں۔
خیال رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کے الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔ افغان طالبان اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں۔
حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ اس وقت بظاہر لگتا ہے کہ ریاست کی تمام تر توجہ ملک کے سیاسی معاملات پر ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی صورتِ حال سے توجہ ہٹ رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج کے ترجمان بھی جب نیوز کانفرنس کرتے ہیں تو اُن کی پریس کانفرنس کا 80 فی صد حصہ نو مئی اور ایک سیاسی جماعت پر مشتمل ہوتا ہے۔
تجزیہ کار داؤد خٹک کہتے ہیں کہ شدت پسندی کی کارروائیاں تب تک مکمل طور پر نہیں روکی جا سکتیں جب تک انہیں بیرونی امداد اور محفوظ پناہ گاہیں میسر ہوں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امریکی اور نیٹو افواج کی 20 برس تک افغانستان میں موجودگی کے باوجود وہاں امن قائم نہیں ہو سکا تھا۔ کیوں کہ طالبان کو نہ صرف بیرونی ممالک سے مالی اور عسکری امداد مل رہی تھی بلکہ انہیں سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں بھی دستیاب تھیں۔
ان کے مطابق یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، جہاں شدت پسند گروہ بیرونی امداد اور پناہ گاہوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نیٹ ورک کو تقویت دے رہے ہیں جس سے علاقے میں عدم استحکام اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
'ریاست کو قبائل کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے'
داؤد خٹک کا کہنا تھا کہ سرحد کے دونوں جانب پشتون آباد ہیں اور ان کی زبان، رہن سہن اور ثقافت میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی ریاست کو قبائل کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی اپنانی ہو گی جو نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے تعلیم، کھیل اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ معاشرتی ترقی میں حصہ لے سکیں۔
داؤد خٹک کے بقول پاکستانی ریاست کا رجحان محض طاقت اور انٹیلی جینس کے ذریعے امن قائم کرنے کی طرف ہے، یہ طریقہ 20 برسوں میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
اُن کے بقول صرف سیکیورٹی کے اداروں پر انحصار کرنے کے بجائے، ان علاقوں میں معاشی اور سماجی ترقی پر توجہ دی جائے تاکہ مقامی آبادی کا اعتماد حاصل ہو سکے۔
حسین شہید سہروردی کا مزید کہنا تھا کہ جب تک تمام سیاسی پارٹیاں بشمول پی ٹی آئی ایک منظم پالیسی کے ساتھ مل بیٹھ کر ان مسائل سے نمٹنے کا حل نہیں نکالتیں تو دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانا مشکل ہو گا۔
واضح رہے کہ رواں سال پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوا ہے۔
اسلام آباد میں قائم تھینک ٹینک 'پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز' کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں رواں سال گزشتہ سال کی نسبت 35 فی صد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں 1100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی تعداد 50 فی صد سے زائد ہے۔
فورم