اولاد والدین کی زندگیوں کا محور ہوتی ہے۔ مشرقی معاشروں میں کثیرالاولاد ہونا خوش بختی اور خوشحالی کی نشانی سمجھا جاتا رہا ہے۔ دنیا چونکہ انفرادی خاندانوں کی طرف بڑھ رہی ہے اس لیے ان معاشروں میں بھی وقت کے ساتھ زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان کم ہوتا نظر آرہا ہے مگر صاحبِ اولاد ہونا اب بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان میں اولاد کو اب بھی نسل قائم رکھنے کا ضامن اور بڑھاپے کا سہارا سمجھا جاتا ہے۔ ابھی شادی ہوتی ہی ہے کہ دوست رشتےدار 'خوشخبری' کے کھوج میں لگ جاتے ہیں۔ سال دو سال گزر جائیں اور گود میں بچہ نہ ہو تو یہی لوگ طرح طرح کے سوالات شروع کر دیتے ہیں۔
جن افراد کے یہاں اولاد نہ ہو ان کا مقدر اکثر معاشرے کی چبھتی نظریں اور طعنے ہی بنتے ہیں۔
کوشش کے باوجود اولاد نہ ہو رہی ہو یا پھر کوئی جوڑا اپنی مرضی سے بچہ پیدا نہ کرنا چاہ رہا ہو، مگر ان کے لیے اکثر مفت مشوروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دے گا تو کوئی حکیم کے پاس جانے کا۔ کچھ ہمدرد درگاہوں پر حاضری سے لیکر پیروں فقیروں کے دروازوں تک ہاتھ پکڑ کر لے جانے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔
پاکستان میں راہ چلتے دیواروں پر بانجھ پن اور مردانہ کمزوری کا علاج کرنے والوں کی معلومات اور دعوے دکھائی دیتے ہیں۔
اس ہفتے وائس آف امریکہ اردو سروس کے آن لائن پروگرام ’ع مطابق‘ میں بانجھ پن کو موضوع بنایا گیا جس میں ڈاکٹر شعوانہ مفتی اور ماہر بانجھ پن ڈاکٹر شاہینہ آصف نے گفتگو کی۔ ساتھ ہی اولاد سے محروم جوڑوں نے بھی اپنے تجربات بیان کیے۔
پروگرام ’ع مطابق‘ میں معاشرے کے چبھتے ہوئے موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ پروگرام ہر پیر کو وی او اے اردو کے فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل پر پاکستان میں رات نو اور بھارت میں ساڑھے نو بجے پیش کیا جاتا ہے۔۔
’کسی گناہ کی سزا‘
امینہ عمر شادی شدہ خاتون ہیں۔ ’ع مطابق‘ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ پارک جاتی ہیں تو اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں شادی شدہ نہیں بلکہ 'ڈیٹ مارنے' آئے ہیں۔ ان کے مطابق بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ، "کیونکہ ہم گناہگار ہیں اس لیے اولاد نہ ہونا قدرت کی طرف سے ہمارے لیے کوئی سزا ہے"۔ بانجھ پن درحقیقت ایک عام طبی مسئلہ ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجیلس کی تحقیق کے مطابق کم و بیش پندرہ فیصد جوڑے بچے پیدا کرنے میں مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
بانجھ پن کیا ہے؟
بانجھ پن کو گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شعوانہ مفتی دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ:
1.اگر عورت کی عمر 35 سال سے کم ہو اور یہ جوڑا کسی مانع حمل کے بغیر جنسی ملاپ کرتا ہو اور اِس کے باوجود 12 ماہ میں حمل قائم نہ ہو پایا ہو تو اسے بطور بانجھ پن دیکھا جائے گا۔
2. اگر عورت کی عمر 35 سال سے زیادہ ہو اور یہ جوڑا کسی مانع حمل کے بغیر جنسی ملاپ کرتا ہو اور اس کے باوجود 6 ماہ میں حمل قائم نہ ہوا ہو تو اسے بھی بطور بانجھ پن دیکھا جائے گا۔
ان دونوں صورتوں میں جوڑوں کو تولیدی صحت کے ماہرین سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
اولاد نہ ہونے پر زیادہ سوالات عورتوں سے ہی کیے جاتے ہیں۔ ثمرین ریاض جن کے یہاں اولاد نہیں، سادہ سے لہجے میں بتاتی ہیں کہ ہمارے معاشرے کا رواج ہے کہ ہر بات کا قصوروار عورت کو ہی ٹھہرا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ کمزور ہے اور اس سے سوال کرنا آسان ہے اس لیے تان عورت پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔
نجی ادارے میں ملازم عمر فاروق بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں کہ مردوں سے ایسے سوال اس لیے کم ہوتے ہیں کیونکہ مرد طاقتور ہوتا ہے، وہ پلٹ کر جواب دیگا جبکہ عورتیں ایسی باتوں کو اپنے اوپر حاوی کر لیتی ہیں اس لیے ان کو نشانہ بنانا آسان ہے۔
کیا بانجھ پن صرف خواتین کا مسئلہ ہے؟
ماہرین کے مطابق بانجھ پن کی کوئی ایک وجہ نہیں اور یہ خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی ہوتا ہے۔ اکثر کیسز میں جوڑے میں سے کسی ایک یا دونوں کے ساتھ تولیدی مسئلہ ہو سکتا ہے جبکہ بعض صورتوں میں تمام ٹیسٹس کے بعد بھی اسباب پتہ نہیں چلتے۔
عورتوں میں بانجھ پن کی وجوہات
خواتین میں بانجھ پن کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں تاہم ماہرین کے مطابق عام وجوہات میں:
فلوپین ٹیوبز یا نالیوں میں نقص ہونا
پولی سسٹک اووریز یعنی بچہ دانی میں رسولیاں ہوجانا
Endometriosis۔ اس عمل میں رحم کی تہہ بنانے والی بافت (ٹشو) رحم کے باہر کی سطح اور فلوپین ٹیوبز پر بڑھنے لگتی ہے۔
مردوں میں بانجھ پن کی وجوہات
مردوں کے بانجھ پن کا سبب:
سپرمز کی تعداد کی کمی
سپرم کی ساخت اور بناوٹ میں تبدیلی
اس کے علاوہ سپرم کی حرکت کا انداز بھی بانجھ پن کا سبب بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر شعوانہ مفتی کہتی ہیں کہ عورتوں کو تکلیف دہ ٹیسٹوں سے گرنا پڑتا ہے جبکہ مردوں کی ٹیسٹنگ آسان ہے اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ پہلے مرد اپنے سیمن سیمپلز کی جانچ کرا لیں تاکہ اگر مسئلہ وہاں ہو تو عورت کو مشکل میں ڈالا ہی نہ جائے مگر پاکستانی معاشرے میں یہ بات سمجھانا بہت مشکل ہے۔
لاہور میں انفرٹلیٹی ایکسپرٹ ڈاکٹر شاہینہ آصف کے مطابق پاکستان میں اکثر مردوں کے لیے یہ انا کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اول تو وہ ڈاکٹر کے پاس خود آتے ہی نہیں اور اگر آجائیں تو اکثر ٹیسٹ کرانے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔
بانجھ پن پر شوہروں کا ساتھ نہ ملنے کی وجہ سے ڈاکٹرز کے پاس علاج کے لیے خواتین ہی آتی رہتی ہیں اور جب انہیں اولاد پانے میں کامیابی نہیں ملتی تو وہ دوسرے راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر شاہینہ کہتی ہیں کہ حکیموں، عطائیوں اور پیروں ،فقیروں کے چکر کاٹنے کے بعد جب یہ جوڑے واپس ڈاکٹروں کا رخ کرتے ہیں تو کئی سال ضائع ہو چکے ہوتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے امکانات مزید معدوم ہو چکے ہوتے ہیں۔
بانجھ پن کا علاج
پاکستان میں اس وقت اوویولیشن انڈکشن (دواؤں کے ذریعے بچہ دانی کی صحت اور انڈوں کی افزائش کا عمل) سے لے کر انٹرا یوٹرین انسیمینیشن(سپرم کو بچہ دانی میں براہ راست پہنچانے کا عمل) اور انویٹرو فرٹیلائزیشن (تولیدی عمل کے لیے سپرم اور انڈے کا افزائش کے لیے کلینیکل لیب میں ملاپ کا کام) جیسے طریقہ کار استعمال ہورہے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی علاج کے ان طریقوں کے سو فیصد کامیاب ہونے کی گارنٹی نہیں دی جاتی۔
بانجھ پن کے علاج کا کامیاب ہونا بھی کئی عوامل پرمنحصر ہوتا ہے۔ یہ علاج صبر طلب بھی ہو سکتے ہیں اور مہنگے بھی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اولاد کی خواہش رکھنے والے جوڑے اگر ایک دوسرے کو الزام دینے کے بجائے ایک دوسرے کے ہمدرد رہیں، اس طبی مسئلے کو حقیقت پسندی سے دیکھیں اور بروقت اپنے ٹیسٹس کرائیں تو بہت سے جوڑے بچہ پیدا کرنے میں کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
خوشی کی راہ میں انا کی دیوار
انسان کی انا حائل نہ ہو تو اولاد کی خوشی پانے کی راہ سے ایک بڑی رکاوٹ دور کی جا سکتی ہے۔ ٹکہ خان پنجاب کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب ڈاکٹر نے ان سے ٹیسٹ کرانے کو کہا تو انہوں نے بلا جھجک نہ صرف اپنے ٹیسٹس کرائے بلکہ اپنا علاج بھی کروایا۔
آج ٹکہ خان اپنے آنگن میں پانچ سال کے بیٹے کو کھیلتا دیکھ کر اپنے فیصلے پر خوش ہیں۔ دیہات سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا یوں کھل کر اس موضوع پر گفتگو کرنا بہت سے جوڑوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے اور اس مفروضے کی نفی بھی کہ اولاد نہ ہونے میں ’قصور‘ صرف عورت کا ہے۔