واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خشوگی کے قتل کی سماعت ترکی میں ہو رہی ہے اور اب جمعرات کو اس قتل میں نامزد 26 سعودی ملزمان کےخلاف اس مقدمے میں ترکی کے وکیل استغاثہ نے اچانک درخواست دی ہے کہ ملزمان کی غیر موجودگی میں جاری مقدمے کی سماعت ترکی میں کرنے کی بجائے اسے سعودی عرب منتقل کر دیا جائے۔
سرکاری خبر رساں اینا ڈولو ایجنسی کی خبر کے مطابق وکیل استغاثہ کی درخواست پر ججوں کے پینل نے فوری طور پر کوئی رولنگ نہیں دی اور یہ فیصلہ کیا کہ ترکی کی وزارت انصاف کو خط لکھ کر محکمے کی رائے معلوم کی جائے گی کہ یہ فائل سعودی عرب کے حکام کو منتقل کرنے کے کیا امکانات ہوسکتے ہیں۔ جس کے بعد مقدمے کی سماعت سات اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔
نجی ڈی ایچ اے نیوز ایجنسی نے اسی سلسلے میں یہ خبر بھی شامل کی کہ وکیل استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ سعودی چیف پبلک پراسیکیوٹر دفتر سے13 مارچ کو لکھے گئے ایک خط میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ ترکی میں جاری کارروائی کو سعودی عرب منتقل کر دیا جائے اور ترکی نے جن نامزد ملزمان کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کیے ہیں ، انہیں کو منسوخ کر دیا جائے۔
کیس کی منتقلی کا دفاع کرتے ہوئے وکیل استغاثہ نے کہا کہ چونکہ گرفتاری کے وارنٹ پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور ملزمان کے بیانات نہیں لیے جا سکتے ، اس لیے ترکی میں چلنے والا یہ کیس نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا۔
اس مقدمے کا یہ نیا رخ ایک ایسے موقعے پر سامنے آیا جب ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو خشوگی کے قتل کے بعد خاصے خراب ہو گئے تھے۔ جمعرات کو ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ قانونی معاملات کے سلسلے میں سعودی عرب مزید تعاون کر رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے اپنی اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی۔
یاد رہے کہ جمال خشوگی دو اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے گئے اور پھر وہ وہاں سے کبھی باہر نہیں نکل سکے اور نہ ہی اب تک ان کی لاش مل سکی ہے۔ ترکی کے تفتیشی حکام نے الزام عائد کیا کہ خشوگی کو قونصل خانے میں قتل کرنے کے بعد ان کی لاش ٹکڑے ٹکڑے کر کے غائب کر دی۔
خشوگی نے اپنے قتل سے پہلے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں سعودی ولی عہد پر تنقید کی تھی۔
ترکی کے حکام نے الزام عائد کیا تھا کہ خشوگی کو سعودی ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے قتل کیا تھا اور اب نامزد ملزمان کی غیر حاضری میں ترکی میں ان پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ان میں سعودی ولی عہد کے دو سابق مشیر بھی شامل ہیں۔ ترکی نے ان ملزمان کی حوالگی کا بھی مطالبہ کیا تھا، جسے سعودی عرب نے مسترد کر دیا تھا۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ترکی پر زور دیا ہے کو وہ مقدمے کو جاری رکھے۔ ترکی کے لیے ایمینسٹی کے ڈائریکٹر طارق بیہان نے کہا کہ اگر وکیل استغاثہ کی منتقلی کی درخواست منظور ہو جاتی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ترکی جانتے بوجھتے ہوئے اس کیس کوایک ایسی جگہ بھیج رہا ہے جہاں اس کے اصل حقائق کو چھپا لیا جائے گا اور کبھی بھی اس قتل کا پردہ فاش نہیں ہو سکے گا۔ خشوگی کی منگیتر نے بھی وکیل استغاثہ کی اس درخواست کی ایک ٹوئٹ کے ذریعے مخالفت کی ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)