پاکستان کی بحریہ نے بلوچستان میں گوادر کے ساحل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا عمل بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق بحریہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سمندری محافظوں کی ایک خصوصی بٹالین تیار کی گئی ہے جو گوادر میں چینی انجینیئرز اور یہاں آنے والے دیگر وفود کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
ان کے بقول گوادر کی بندرگاہ کی چین پاکستان اقتصادی راہداری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے اور پاکستانی بحریہ یہاں سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اقدام کر رہی ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستانی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا ایک جال بچھایا جانا ہے اور دونوں ملک اسے خطے کی قسمت بدل دینے والا منصوبہ قرار دیتے ہوئے اس کی تکمیل کے لیے پرعزم ہیں۔
بلوچستان میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری شورش پسندی کی وجہ سے خاص طور پر گوادر بندرگاہ کی سلامتی سے متعلق خدشات ظاہر کیے جاتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے ہی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس بندرگاہ اور اقتصادی راہداری سے وابستہ لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج نے سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر گوادر کو مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ شہر بنانے کے لیے اقدام کیے اور ان کے بقول ان منصوبوں سے پاکستان اور خصوصاً بلوچستان کے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی۔
انھوں نے تمام متعلقہ اداروں کو راہداری منصوبے پر کام کرنے والوں خصوصاً چینی باشندوں کے تحفظ کے اقدام کو مزید سخت کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔
بلوچستان میں عسکریت پسند یہاں دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والوں اور کارکنوں پر ہلاکت خیز حملوں اور اغوا میں ملوث رہے ہیں۔ تاہم سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان کالعدم تنظیموں کے خلاف جاری کارروائیوں کی بدولت ایسے واقعات میں بھی ماضی کی نسبت خاطر خواہ کمی دیکھی گئی ہے۔
یہ بلوچ عسکریت اور علیحدگی پسند تنظیمیں صوبے کے وسائل اور اختیارات میں زیادہ حصے کا مطالبہ کرتی ہیں اور ان کے بقول قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے کے وسائل کا فائدہ یہاں کے عوام کی بجائے ملک کے دیگر حصوں کو پہنچایا جا رہا ہے۔
تاہم وفاقی اور صوبائی حکومت کے عہدیداران یہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں شروع ہونے والے منصوبوں میں مقامی آبادی کو ترجیح دی جا رہی ہے اور ان سے صوبے کی معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔