رسائی کے لنکس

قرضوں میں جکڑے بھٹہ مزدور: کیا پاکستان میں جبری مشقت کا خاتمہ ممکن ہے؟


  • پاکستان میں جبری مشقت کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ
  • ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 24 سے 32 لاکھ افراد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں: انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن
  • پنجاب کے مختلف شہروں میں پورے کے پورے خاندان جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
  • یہ لوگ قرض میں ایسے جکڑے جاتے ہیں کہ پھر جبری مشقت کے علاوہ اُن کے پاس کوئی حل نہیں بچتا: ماہرین

"دن میں بہت گرمی ہوتی ہے۔ ہم آگ پر کام کرتے ہیں اوپر سے سورج آگ برساتا ہے جس کے باعث ہماری ہمت جواب دے جاتی ہے۔"

یہ الفاظ ہیں 47 سالہ جعفر اقبال کے جو لاہور کے نواحی علاقے میں قائم ایک اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے ہیں۔

جعفر اقبال بتاتے ہیں کہ چلچلاتی دھوپ اور جھلسا دینی والی گرمی کے باعث اینٹوں کے بھٹے پر دِن میں کام نہیں کر پاتے جس کے سبب وہ رات 12 بجے سے ایک بجے کے درمیان اپنی مزدوری شروع کرتے ہیں جو صبح 10 بجے تک جاری رہتی ہے۔

خیال رہے کہ لاہور سمیت ملک کے میدانی علاقے ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ جہاں عمومی طور پر درجہ حرارت 45 ڈگری سیٹی گریڈ سے 51 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔

جعفر اقبال کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع وہاڑی سے ہے اور اُن کے خاندان کے کئی افراد بھٹے پر کام کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق آئندہ بھی بچے یہی کام کرتے رہیں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جعفر اقبال نے بتایا کہ وہ جب سات سال کے تھے تو ضلع وہاڑی میں اپنے والد کے ساتھ اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری کیا کرتے تھے۔ جہاں اُجرت بہت کم تھی جس کے باعث وہ لاہور آ گئے۔ یہاں اُجرت قدرے بہتر ہے۔ وہ اب لاہور میں اپنی بیوی اور چھ بچوں کے ساتھ ایک اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کرتے ہیں۔

جعفر اقبال نے بتایا کہ وہ ایک ہزار روپے دیہاڑی پر اینٹوں کے بھٹے پر گارے سے اینٹیں بناتے ہیں۔ وہ تقریباً سات سے آٹھ گھنٹوں میں ایک ہزار اینٹ تیار کرتے ہیں۔ یومیہ اُجرت (دیہاڑی) تو ایک ہزار روپے ہے لیکن کٹوتی کے بعد اُنہیں 900 روپے ملتے ہیں۔

نسل در نسل مشقت

نسل در نسل جبری مشقت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے جعفر اقبال نے کہا کہ وہ غریب لوگ ہیں۔ بڑی مشکل سے محنت مزدوری کر کے اپنا گزر بسر ہی کرتے ہیں۔ اِس لیے وہ بھٹہ مالکان سے ایک لاکھ روپے سالانہ کی بنیاد پر اُدھار لے لیتے ہیں۔

سال گزرنے کے بعد وہ ادھار رقم واپس نہیں کر پاتے کہ اگلے سال وہ ایک لاکھ روپے اور اُدھار لے لیتے ہیں اور یہ قرض کی رقم ہر سال بڑھتی چلی جاتی ہے جس کے باعث وہ نسل در نسل جبری مشقت کرتے رہتے ہیں۔

اینٹوں کے بھٹے پر دیہاڑی دار مزدور اور تنخواہ دار مزدور کے مسائل ایک سے ہیں۔ دونوں ہی کم اُجرت کی شکایت کرتے ہیں۔

ایبٹوں کے ایک اور بھٹے پر مزدوری کرنے والے محمد ساجد بتاتے ہیں کہ وہ 20 ہزار ماہاہ تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ اُس میں سے بھی اکثر کتوٹی ہو جاتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد ساجد کا کہنا تھا کہ تپتی دھوپ میں جتنی اُن سے مشقت لی جاتی ہے، اُس کے عوض اُنہیں اُتنا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ یہ کام گزشتہ 12 برسوں سے کر رہے ہیں اور اُن کے بڑے بزرگ بھی یہی کام کیا کرتے تھے۔

محمد ساجد کے بقول حکومت کی جانب سے کم سے کم اجرت کے قانون پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ حکومت نے مزدور کی کم از کم اُجرت مقرر کر رکھی ہے جس میں بجٹ کے بعد اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن اُنہیں تو پرانی تنخواہ بھی کوئی نہیں دینا۔

ایسی ہی ملتی جلتی کہانی اینٹوں کو بنانے کے لیے کچی مٹی سے گارا تیار کرنے والے مزدور محمد عمران اور دیگر مزوروں کی ہے۔ جو یہ بتاتے ہیں کہ جب قرض کی رقم ادا نہیں ہوتی تو مالک مختلف طریقوں سے اُنہیں تنگ کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عمران نے بتایا کہ اُن سمیت کوئی بھی مزدور اپنی مرضی سے کام چھوڑ کر کسی دوسرے بھٹے یا کسی اور جگہ مزدوری کے لیے نہیں جا سکتا۔

اُن کے بقول جب کسی دوسرے اینٹوں کے بھٹے کے مالک کو مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے تو اُن کی قرض کی رقم ادا کر کے اُنہیں خرید کر اپنے پاس مزدوری کے لیے لے جاتا ہے۔

جبری مشقت میں اضافہ

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان میں جبری مشقت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جس میں گزشتہ پانچ برسوں میں 10 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

آئی ایل او کے مطابق پاکستان کے تین شعبوں میں جبری مشقت زیادہ ہے جن میں اینٹوں کے بھٹے، کان کنی اور زراعت کے شعبے شامل ہیں۔ جہاں لوگوں کی اُجرت کم ہے اور لوگوں کی بنیادی صحت کی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔

پاکستان میں آئی ایل او (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے نمائندے ڈاکٹر فیصل اقبال کا کہنا تھا کہ جبری مشقت ایک عالمی مسئلہ ہے۔

اُن کے بقول دنیا بھر میں جبری مشقت کی انڈسٹری 236 بلین ڈالر کی ہے۔ اِس انڈسٹری سے جڑے افراد جبری مشقت کے تحت لوگوں سے ناجائز منافع کماتے ہیں جس میں نجی سیکٹر کے لوگ زیادہ پیسہ کماتے ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 24 سے 32 لاکھ لوگ جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔

محکمہ لیبر پنجاب کے مطابق وہ سرکاری سطح پر مقرر کی گئی کم سے کم اُجرت کی ادائیگی کو یقینی بناتے ہیں جس کے لیے وہ وقتاً فوقتاً اینٹوں کے بھٹوں سمیت تمام کارخانوں اور دیگر جگہوں پر اچانک جانچ پڑتال کے لیے بھی جاتے رہتے ہیں۔

جبری مشقت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر فیصل اقبال کے مطابق جبری مشقت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی حکومتیں کام تو کر رہی ہیں۔ لیکن پاکستان کے اِن فارمل سیکٹر خاص طور پر زراعت میں اِن قوانین کا پوری طرح اطلاق نہیں ہوتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِسی طرح تعلیم کی کمی بھی جبری مشقت کے خاتمے میں رکاوٹ ہے جس کے باعث دیہی علاقوں میں اِس کی شرح زیادہ ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ روزگار کے مواقع کا کم ہونا بھی جبری مشقت کی وجہ ہے۔

جبری مشقت والے افراد کِن مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر فیصل اقبال کے مطابق جبری مشقت کرنے والے افراد سوشل سیکیورٹی کی سہولیات سے بھی محروم رہتے ہیں جب کہ ان کے بچے بھی اسکول نہیں جا پاتے۔ لہذٰا وہ مختلف نفسیاتی اور ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG