برف پوش پہاڑی پر ایک مندر میں پجاری جمع ہیں اور آگ میں گھی اور چاول ڈال رہے ہیں۔ان کی آنکھیں بند ہیں اور سنسکرت میں وہ کچھ مذہبی کلمات بھی پڑھ رہے ہیں۔ انہیں آس ہے کہ ان دعاؤں سے ان کا یہ مقدس قصبہ بچ جائے گا جو آہستہ آہستہ زمین میں دھنس رہا ہے۔
کئی ماہ سے تقریباً 20 ہزار آبادی والا یہ قصبہ جوشی مٹھ آہستہ آہستہ زمین میں دھنس رہا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع اس قصبے کو ہندو اور سکھ مقدس مانتے ہیں۔
قصبے کی عمارتوں اور زمین میں دراڑیں ابھرنے کی وجہ سے جوشی مٹھ کے مکینوں نے رواں برس جنوری میں بڑے پیمانے پر اس مسئلے کی جانب توجہ دینے کے لیے اپیلیں کی تھیں۔ اس کے بعد سے جوشی مٹھ میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کو عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل ہوئی۔
لیکن اس وقت تک جوشی مٹھ میں تباہی مزید بڑھتی گئی۔ کئی ہوٹلوں کی کثیر المنزلہ عمارتیں ایک جانب جھک گئیں اور سڑکوں میں گہری دراڑیں پڑ گئیں۔
جوشی مٹھ کے 860 سے زائد مکانات رہائش کے قابل نہیں رہیں کیوں کہ ان کی دیواروں، چھتوں اور فرش میں دراڑیں پڑ چکی تھیں اور ان میں سے سانپ گھروں کے اندر داخل ہورہے تھے۔ ان مکانات کو بچانے کے بجائے انہیں بلڈوز کردیا گیا جس کے نتیجے میں جابجا ملبے کے ڈھیر لگ گئے۔
جوشی مٹھ کی بستی کئی برستوں تک یہاں مٹی کے تودے گرنے اور زلزلوں سے جمع ہونے والے ملبے اور باقیات پر بسائی گئی ایک بستی ہے۔ سائنس دان کئی دہائیوں سے یہ بات واضح کرچکے تھے کہ اس علاقے میں بھاری مشینری کے استعمال سے تعمیراتی کام تباہ کُن ثابت ہوگا۔
اس سلسلے میں 1976 میں ایک رپورٹ بھی مرتب کی گئی تھی۔ اس کے باجود گزشتہ کچھ عرصے سے جوشی مٹھ کے نواح میں بھاری مشینری کے استعمال سے تعمیراتی کام جاری ہے۔
جوشی مٹھ کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں شامل اتل ستی کا کہنا ہے کہ مکانات اور زمین میں پڑنے والی دراڑیں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑی ہورہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کئی برسوں سے بتا رہے تھے کہ یہ اصل تباہی نہیں بلکہ کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ ٹک ٹک کرتا ہوا بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
مستقبل خطرے میں ہے
بھارت کی ریاست اترا کھنڈ میں واقع جوشی مٹھ کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ماہرین اور ماحولیاتی تحفظ کے کارکنان کے مطابق یہاں آنے والی حالیہ تباہی کے پیچھے وہ منصوبے ہیں جو مذہبی مقامات کی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اترا کھنڈ حکومت نے شروع کررکھے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر تعمیرات اور ہائیڈرو پاؤر کے منصوبوں کی وجہ سے زمین کی تہہ میں مٹی بھرنے کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
سطحِ سمندر سے 6200 فٹ بلندی پر واقع جوشی مٹھ کو ہندو مت کے ماننے والے ایک روحانی قوت کا حامل مقام قرار دیتے ہیں۔
ہندو مذہب کی تاریخ کے مطابق آٹھویں صدی میں ہندو گرو آدی شنکر اچاریہ کو یہاں روحانی روشنی حاصل ہوئی تھی اور یہیں سے نکل کر انہوں نے ہندوستان میں چار مذہبی درس گاہیں قائم کی تھیں جن میں سے ایک جوشی مٹھ میں بھی واقع ہے۔
’جوشی مٹھ شمالی ہندوستان کا دماغ ‘
جوشی مٹھ سکھوں اور ہندوؤں کے اہم مذہبی مقامات کے راستے میں واقع ہے۔ سکھ یہاں سے گزر کر ہیمکند صاحب کے گردوارے اور ہندو بدری ناتھ مندر جاتے ہیں۔
ایک مقامی مذہبی رہنما برھماچاری مکندانند کا کہنا ہے کہ اس قصبے کو بچانا ضروری ہے۔ ان کے بقول جوشی ناتھ شمالی بھارت کا ’دماغ‘ ہے۔ ان کے بقول بعض اعضا اگر کٹ بھی جائیں تو جسم کام کرتا رہتا ہے۔ لیکن اگر دماغ متاثر ہو تو جسم بھی ناکارہ ہوسکتا ہے۔
ماحولیاتی ماہر وملندو جھا کا کہنا ہے کہ جوشی مٹھ کی زمین اور مٹی تعمیرات کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی مرتبہ تعمیر ہی دراصل تباہی کی بنیادی وجہ بنتی ہے اور جوشی مٹھ میں یہی صورتِ حال درپیش ہے۔
جوشی مٹھ کے 240 خاندانوں کو مکان غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے منتقلی پر مجبور کیا گیا ہے۔ ان خاندانوں کو علم نہیں کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے گھر واپس آسکیں گے یا نہیں۔
’حکومت نے خطرے کو نظر انداز کیا‘
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس ‘کے مطابق ماہرین جوشی مٹھ میں درپیش خطرات سے خبر دار کرتے رہے لیکن حکام نے انہیں نظر انداز کرکے اس علاقے میں ایک ہائیڈرو پاؤر اسٹیشن اور طویل ہائی وے کی تعمیر کا کام جاری رکھا۔
ہائی وے کی تعمیر کا مقصد اس علاقے میں مذہبی مقامات کی سیاحت کو فروغ دینا تھا۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت مذہبی سیاحت کے فروغ کو اپنے اہم اہداف میں شمار کرتی ہے۔
سال 2021 میں نریندر مودی نے وعدہ کیا تھا کہ اتراکھنڈ کے لیے اگلی دہائی خوش حالی کی دہائی ثابت ہو گی۔ ریاست میں کئی اہم مذہبی مقامات ہیں اور انفرااسٹرکچر کی بہتری کی وجہ سے ان کی سیاحت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ریاستی اعدادو شمار کے مطابق 2019 میں پانچ لاکھ افراد مختلف مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے جوشی مٹھ سے گزرے۔
اتراکھنڈ میں ہندو مذہب کے ماننے والے چار دھام کی یاترا کے لیے آتے ہیں جسے ہندو مذہب کاسب سے دشوار گزار مذہبی سفر کہا جاتا ہے۔اس سفر میں بدری ناتھ، گنگوتری، کیدارناتھ اور یمنوتری کے مندروں کی زیارت کرنا ہوتی ہے۔
یہ مندر انتہائی بلندی پر واقع ہیں اور ان کے راستے بہت کٹھن ہیں۔ سخت موسم اور بلندی کی وجہ سے کئی مقامات پر آکسیجن بھی بہت کم ہوجاتا ہے۔
چاردھام منصوبہ
سال 2022 میں چاردھام یاترا کرنے والے ڈھائی لاکھ زائرین میں سے 200 افراد کی جانیں گئی تھیں۔ حکام کے مطابق موجودہ انفرااسٹرکچر زائرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے ناکافی ہے۔
اس کے لیے پہلے ہی چاردھام انفرااسٹرکچر پراجیکٹ پر کام جاری ہے جس کے تحت 32 فٹ چوڑی اور 889 کلو میٹر طویل ہائی وے بنائی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑوں میں 327 کلو میٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے پر بھی کام ہورہا ہے۔
ماہرین ان مںصوبوں کو ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع کئی بستیوں کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں کیوں کہ یہ قصبے پہاڑوں سے گرنےو الے تودوں سے جمع ہونے والی مٹی پر آباد کیے گئے ہیں۔
ماحولیاتی ماہر روی چوپڑا چاردھام انفرااسٹرکچر منصوبے کا جائزہ لینے والی کمیٹی میں شامل تھے۔ تاہم جب عدالت نے اس منصوبے کو حکومت کی صوابدید قرار دیا تو وہ اس کمیٹی سے مستعفی ہوگئے۔
روی چوپڑا کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں مجوزہ منصوبے کے مطابق اتنی چوڑی سڑکیں تعمیر کرنے کے لیے یقینی طور پر بھاری مشینری اور درختوں کو کاٹنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس کی وجہ سے پہاڑ مزید کمزور ہوں گے جو کسی بھی بڑی آفت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
سرنگیں اور دھماکے
چاردھام پراجیکٹ کے علاوہ جوشی مٹھ بچاؤ کمیٹی علاقے کے نزدیک نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن (این ٹی پی سی) کے ہائیڈرو پاؤر کے منصوبے کی تعمیر کو بھی تباہی کا باعث قرار دیتی ہے۔
جوشی مٹھ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ پاؤر اسٹیشن کے لیے 12 کلومیٹر طویل ایک سرنگ تیار کی جارہی ہے۔ سرنگ بنانے کے لیے کیے گئے دھماکوں کی وجہ سے ان کے مکانات شدید متاثر ہوئے ہیں۔
این ٹی پی سی ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ ماہرین کی ایک ٹیم پہلے ہی نکاسیٔ آب کے ناقص نظام کو جوشی مٹھ میں مکانات زمین میں دھنسنے کی وجہ قرار دے چکی ہے۔
ریاست اتراکھنڈ نے متاثرہ خاندانوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے امدادی رقم سمیت ایک ریلیف پیکج فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر حکومتی ادارے اس معاملے کی تحقیق کررہے ہیں۔
مستقبل کے منصوبوں پر سوالیہ نشان
بھارت توانائی کی پیداوار کے لیے کوئلے پر انحصار کم کرکے ہائیڈرو پاؤر پر اپنا انحصار بڑھانا چاہتا ہے۔ اترا کھنڈ میں 30 سے زائد دریا ہیں اور یہاں کئی گلیشیئر بھی موجود ہیں۔ اس ریاست میں ہائیڈرو پاؤر کے لگ بھگ 100 منصوبے کسی نہ کسی مرحلے میں جاری ہیں۔
جوشی مٹھ میں پیدا ہونے والے بحران نے توانائی کے شعبے میں بھارت کے مستقبل کے منصوبوں پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔
سال 2021 میں شدید سیلاب کے باعث جوشی مٹھ کے نزدیک توپووان پلانٹ منہدم ہوجانے سے 200 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ سیلاب گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث آیا تھا۔ اس سے قبل 2013 میں شدید بارشوں سے ریاست اترا کھنڈ میں تقریباً 6000 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
ماہرین خبر دار کرتے ہیں کہ ہائیڈرو پاؤر منصوبوں کے لیے بھاری مشینری کے استعمال، دریاوں کے رخ تبدیل کرنے اور جنگلات کی کٹائی جیسے اقدامات ماحولیات خطرات کو مزید سنگین بنا دیں گے۔
صدیوں کا ورثہ خطرے میں
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جوشی مٹھ کے گرد و نواح میں کئی گاؤں اور بستیاں ویران ہوچکی ہیں۔
الاکنندا دریا کے نزید واقع آٹھویں صدی سے آباد ایک چھوٹا سا گاؤں ہات اس لیے مقدس تصور ہوتا تھا کہ یہاں کبھی آدی شنکر اچاریہ نے مندر تعمیر کیا تھا۔ لیکن آج یہ تعمیراتی سامان کا ڈمپنگ گراؤنڈ بن چکا ہے۔ اس کی زمین 2009 میں ایک توانائی پیدا کرنے والی کمپنی نے حاصل کی تھی۔
اس گاؤں میں صرف لکشمی نرائن مندر ہی سلامت بچا ہے جس کے اردد گرد سیمنٹ کی باقیات کا ڈھیر ہے اور ہات میں صرف یہی حصہ سلامت ہے۔ اس کے تمام رہائشی گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں اور حکام نے ان کے مکانات کو منہدم کردیا ہے۔
ہات گاؤں کے مکھیا رہنے والے راجیندر ہتوال کا کہنا ہے کہ توانائی کا منصوبہ ان کے گاؤں کو نگل گیا۔
ایک عدالت نے گزشتہ برس مقامی حکام کو تاریخی مندروں کے نزید ملبہ اور مشینری وغیرہ ڈمپنگ سے روکنے کا حکم دیا تھا۔ ہات میں قائم مندر بدری ناتھ مندر کی یاترا کے سفر میں زائرین کا آخری قیام گاہ ہے۔
ہتوال اور بعض دیگر لوگ اب بھی اپنے گاؤں میں قائم اس مندر کی دیکھ بھال کے لیے یہاں آتے رہتے ہیں۔ مندر کے دیکھ بھال کرنے والے ایک شخص نے یہاں سے جانے سے انکار کردیا تھا اور وہ ایک عارضی کمرے میں رہتے ہیں۔ وہ مندر کی صفائی کرتے ہیں، مورتیوں کی صفائی کرتے ہیں اور مندر میں آنے والے زائرین کے لیے چائے بھی بناتے ہیں۔
ہات گاؤں کے رہنے والوں کو ڈر ہے کہ ان کے گھروں کی طرح اس مندر کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔
راجندر ہتوال کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر مندر کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس ورثے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے صرف ہمارا گاؤں ہی تباہ نہیں کیا بلکہ 12 سو سالہ تاریخ کو برباد کردیا ہے۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔