"مجھے لگا اس داخلی دروازے کی حفاظت کرتے ہوئے میری جان چلی جائے گی۔" یہ الفاظ تھے کیپٹل پولیس سارجنٹ اقیلینوگونیل کے جنہوں نے تین دیگر پولیس افسروں کے ہمراہ گزشتہ سال جولائی میں چھ جنوری کے کیپٹل ہل حملے کی چھان بین کرنے والے کانگریس کے ایک پینل کے سامنے اپنا بیان دیا۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے حملے سے کانگریس کی عمارت اور قانون سازوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے تو مظاہرین میں پھنس کر ان کی سانس رکنے لگی اور انہیں لگا آکسیجن کم ہوتی جا رہی ہے۔
وہیں 42 سالہ آفیسر برائن سک نک بھی تھے جو ہجوم کو کانگریس کی عمارت کے سامنے روکنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہجوم میں سے کسی نے ان پر کیمیکل اسپرے کر دیا اور وہ بیہوش ہو گئے۔ انہیں اسپتال پہنچایا گیا اور 24 گھنٹے بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔ اگرچہ ڈاکٹروں نے یہی کہا کہ ان کی موت کیمیائی مادے کے باعث نہیں ہوئی۔
گزشتہ برس آج ہی کے دن واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کے ہلہ بولنے کے بعد سب سے پہلےجن لوگوں کا ان سے سامنا ہوا وہ دارالحکومت میں 'یو ایس کیپٹل پولیس' کے اہلکار تھے، جنہوں نے ہجوم کو روکنے کی کوشش کی اور جواب میں انہیں پر تشدد ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
چھ جنوری 2021 کی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں پولیس افسر برائن سک نک کے علاوہ کم از کم 8 مزید افراد ہلاک ہوئے۔ ایک خاتون اس وقت پولیس کی گولی کا نشانہ بنیں جب وہ ایوانِ نمائندگان کے چیمبر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں۔ سابق صدر ٹرمپ کے تین دیگر حامی زخمی ہوئے جب کہ چھ جنوری کے بعد کے دنوں میں دو پولیس افسروں نے خودکشی کر لی۔
میٹرو پولیٹن پولیس نے گزشتہ موسمِ گرما میں بتایا کہ خود کشی کرنے والوں میں مزید دو پولیس افسر کائل ڈی فری ٹیگ اور گنتھر ہشیدا شامل تھے۔
نئے پولیس سربراہ کے عزائم
ان سب واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چھ جنوری کی اس ہنگامہ آرائی نے قانون نافذ کرنے والے ملک کے سب سے اہم ادارے، یو ایس کیپٹل پولیس کو کس قدر متاثر کیا۔ اس ادارے کے اس وقت کے سربراہ کو استعفیٰ دینا پڑا اور جولائی 2021 میں اس کے نئے سربراہ جے تھامس مینجر نے اپنا عہدہ سنبھال لیا۔
کیپٹل ہل پر حملے کا ایک سال مکمل ہونے سے ایک روز قبل، یو ایس کیپٹل پولیس کے سربراہ مینجر نے بدھ کے روز بتایا کہ اس حملے میں ان کے 100 سے زیادہ افسر زخمی ہوئے۔ تمام ہنگامہ آرائی کے دوران اور اس کے بعد بھی کیپٹل پولیس کو اس نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے اہلکاروں کی کافی تعداد کیپٹل ہل پر تعینات نہیں تھی اور یہ کہ نیشنل گارڈز نامی فورس کو طلب کیوں نہیں کیا گیا۔
تاہم، اب ایک سال بعد پولیس چیف مینجر نے کہا ہے کہ اگرچہ عملے کی کمی ہے اور امریکی اراکینِ کانگریس کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا ہے مگر انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ انتہائی ضروری کمیاں لازماً دور کریں گے۔
انہوں نے سینیٹ کی ایک سماعت میں ایک نگراں ادارے کے سو سے زیادہ سوالوں کے جواب میں ان تبدیلیوں کا ذکر کیا جو وہ اپنے ادارے کو ایک روایتی محکمۂ پولیس کے بجائے ایک حفاظتی فورس بنانے کے لیے لا رہے ہیں۔
ان کے اس منصوبے میں اس فورس کی نفری میں 450 اہلکاروں کی کمی کو پورا کرنا بھی شامل ہے۔ مینجر کا کہنا ہے کہ یہ فورس دارالحکومت یا اراکینِ کانگریس کے خلاف کسی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے، ایک سال پہلے کی نسبت کہیں زیادہ مسلح اور کہیں زیادہ مشاق ہے۔
'کیپٹل ہل حملے کی تحقیقات جاری رہیں گی'
کیپٹل ہل حملے کی چھان بین جاری ہے۔ امریکی تاریخ کے اس انتہائی غیر معمولی واقعے کا ایک سال مکمل ہونے سے ایک روز پہلے، امریکہ کے اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکی کانگریس پر اس حملے کے سب ذمے داروں کا حساب ہوگا خواہ وہ وہاں خود موجود تھے یا نہیں۔
انہوں نے بدھ کے روز محکمۂ انصاف کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹرز نے عزم کیا ہے کہ وہ چھ جنوری کے حملے میں ہر سطح پر ملوث تمام ذمے داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔
امریکی محکمۂ انصاف پر بعض ڈیمو کریٹس کی جانب سے دباؤ رہا ہے کہ وہ ان کارروائیوں پر توجہ دے جو ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں کو اکسانے کا باعث بنیں کہ وہ کانگریس کی عمارت پر ہلہ بول دیں۔
اب تک 725 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں اکثریت سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کی ہے۔ ان میں سے 225 پر حملے یا گرفتاری میں مزاحمت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ 75 سے زیادہ پر پولیس افسروں کے خلاف ہلاکت خیز یا خطرناک ہتھیار استعمال کرنے کا الزام ہے۔
یو ایس کیپٹل پولیس اور واشنگٹن سٹی پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے 140 اہلکار امریکی حکومت کے اس ایوان پر حملے میں زخمی ہوئے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔