رسائی کے لنکس

اقرار جرم کا بیان، زوخار کے وکلا کا داؤ پیچ؟


عدالتی سماعت (اسکیچ)
عدالتی سماعت (اسکیچ)

ملزم کی اٹارنی، جوڈتھ کلارک نے بدھ کو اپنے ابتدائی بیان میں سارنیف کی زندگی بچانے کی وکالت کی کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے زیر اثر تھا، اور ایسا نہیں کہ وہی اس حملے کا اصل کردار ہے

بوسٹن میراتھون بم حملوں میں زوخار سارنیف کے جرم کو تسلیم کرکے، کیا اُن کے وکلا یہ مان گئے ہیں کہ اُن کی باقی زندگی قید میں گزرے؟ تاہم، قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقرار کے نتیجے میں وہ موت کی سزا سے بچ بھی سکتے ہیں۔

اِس ہفتے مقدمے کے آغاز ہی پر، زوخار سارنیف کے وکلا نے صاف طور پر تسلیم کیا کہ اُن کے 21 برس کے مؤکل اور اُن کے بھائی نے ہی 15 اپریل 2013ء کو دو بم نصب کیے جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 264 زخمی ہوئے؛ اور تین روز بعد اُن کی جانب سے شہر سے بھاگنے کے کوشش کے دوران پولیس کے ساتھ گولیوں کے تبادلے میں، ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا۔

اب تک جو شہادتیں سامنے آئی ہیں، اُن میں جیوری نے زندہ بچ جانے والوں کی دلخراش داستان سنی، جس میں بم پھٹنے پر ہونے والی بھگدڑ اور تباہی کی تفصیل سنی گئی، جن میں لوگوں کی ٹانگیں ضائع ہونے کا ذکر تھا، جب کہ ایک والد نے بتایا کہ اُن کی بیٹی کی ٹانگ ضایع ہوئی، جسے سہارا دیتے ہوئے اُنھوں نے اپنے آٹھ برس کے بچے کو زخمی کیفیت میں وہیں چھوڑا، جن کے بارے میں اُنھیں لگ رہا تھا کہ وہ بچ نہیں پائیں گے۔

یہ شہادتیں مقدمے کی سماعت کے شروعاتی مرحلے کا حصہ ہیں، جو بوسٹن میں امریکی ضلعی عدالت کی پیشی میں سامنے آئیں۔ جیوری یہ طے کررہی ہے آیا زوخار سارنیف مجرم ہے؟

اُس کے بعد دوسرے مرحلے میں، جیوری اس سوال پر غور کرے گی، آیا ملزم کو موت یا ضمانت کے بغیر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے؟

جان بلوم ’کارنیل یونیورسٹی‘ میں قانون کے پروفیسر ہیں، اور ادارے کے سزائے موت سے متعلق تحقیق کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’ملزم کے وکیل قصوروار ہونے کا اقرار کرکے، دراصل جیوری کے دِلوں سے سارنیف سے متعلق غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور سزا کا سوال طے کرنے میں غیرجانبداری برتیں گے، چاہے یہ زندہ رہنے یا موت سے متعلق فیصلہ ہو۔

استغاثہ نے پہلے ہی زوخار سارنیف اور اُن کے 26 برس کے بھائی، تمرلان کی وڈیو دکھائی ہیں، جن میں اُنھیں بھیڑ سے گزر کر فنش لائن کی طرف جاتے دکھایا گیا، اور جیف بامن کی روداد سنی، جنھوں نے یہ شہادت دی کہ دھماکے میں اُن کی ٹانگ ٹوٹنے سے پہلے اُنھوں نے زوخار کے بھائی کو ایک گھٹڑی چھوڑ کر پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا تھا۔

دھماکوں کے تین روز بعد، بوسٹن سے بھاگ نکلنے کی کوشش کے دوران پولیس سے گولیوں کے تبادلے میں تمرلان سارنیف ہلاک ہوا، جس کے دوسرے روز زوخار کو پکڑ لیا گیا، جو ایک لنگرانداز کشتی میں چھپا بیٹھا تھا، جہاں اُس نے ایک خط تحریر کیا، جس میں اُنھوں نے بم حملوں کو امریکہ کی جانب سے مسلمان اکثریتی آبادی والے ملکوں کے خلاف فوجی کارروائی کا بدلہ قرار دیا۔

سارنیف کے خلاف شہادتوں کے انبار کو دیکھتے ہوئے، اُن کے وکلا کو امید ہے کہ قصور مان کر ہی وہ جیوری کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔

والٹر پرنس، بوسٹن میں اٹارنی ہیں، جہاں وہ نجی پریکٹس کرتے ہیں اور سابق وفاقی وکیل استغاثہ ہیں۔

ملزم کے وکلا نے مقدمے کے دو دِنوں کے دوران حملوں کے متاثرین یا امدادی کارکنوں کی جانب سے دی جانے والی شہادت پر جرح نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے استغاثے کو یہ موقع میسر آئے گاکہ وہ اپنا کیس خود تیار کرے اور یوں مقدمے میں قصوروار قرار دینے کا مرحلہ توقع سے بہت پہلے حل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ، یہ حقیقت کہ سارنیف نے خود اقرار جرم نہیں کیا، یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ وفاقی استغاثہ اُن کو موت کی سزا دلانے کے اپنے ارادے سے ہٹنا نہیں چاہتا۔

مدعا علیہ کی اٹارنی، جوڈتھ کلارک نے بدھ کو اپنے ابتدائی بیان میں سارنیف کی زندگی بچانے کی وکالت کی کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے زیر اثر تھا، اور ایسا نہیں کہ وہی اس حملے کا اصل کردار ہے۔

امریکی ضلعی جج، جارج او تولے نے اُن کی استدعا کا توڑ پیش کرتے ہوئے اس جانب دھیان مبذول کرایا کہ وہ بھائیوں کی جوڑی پر عائد ہونے والے الزام کے بحث میں الجھنا نہیں چاہتے، جب تک کہ جیوری سارنیف کے قصور کا تعین نہ کرلے۔

او تولے نے بم حملوں میں بچ جانے والے چند حضرات کی شہادت درج کرنے کی اجازت دی، جن کی ٹانگیں تیز دھار والے پرزے لگنے کے نتیجے میں ٹوٹیں، جنھیں بار بار عمل جراحی درکار ہوا، باوجود اس بات کے کہ وکیل صفائی کے اس اصرار پر کہ اس طرح کی شہادتیں مقدمے میں سزا کے بارے میں غور کے دوران ضروری ہوں گی۔

تاہم، اُنھوں نے بوسٹن پولیس اہل کاروں کو روکا، جنھوں نے ماضی میں امریکی فوج میں خدمات انجام دی تھیں۔ وہ اِن بم حملوں اور عراق میں خدمات بجا لانے کے دوران کے حالات کا موازنہ کرنا چاہتے تھے۔

اوتولے جے جمعرات کے دِن کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ سماعت کے دوران عراق یا افغانستان کو کوئی حوالہ سنوں، جب تک کہ آگے چل کر، کسی مرحلے پر،میں خود اس کی اجازت نہ دوں۔

عدالت میں جمعے کو مقدمے کی کارروائی نہیں ہوئی، جس کی سماعت اب پیر کو ہوگی۔

XS
SM
MD
LG