فیس بک نے پاکستان سے چلنے والے 40 اکاؤنٹس، 25 پیجز، چھ گروپس اور 28 انسٹاگرام اکاؤنٹس بند کر دیے ہیں۔ ان اکاؤنٹس کو ’الفا پرو نامی‘ ایک کمپنی چلا رہی تھی اور ان پر شبہ ہے کہ ان کے ذریعے ’منظم غیر مصدقہ رویہ‘ دیکھنے میں آ رہا تھا۔
اس بارے میں تحقیقات کے لیے فیس بک کی مدد کرنے والی کمپنی گرافیکا کا کہنا ہے کہ ان اکاؤنٹس میں سے بعض کا تعلق سال 2019 میں بند ہونے والے پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ملازمین کے اکاؤنٹس کے ساتھ پایا گیا ہے۔
فیس بک کے قواعد و ضوابط میں ایسے اکاؤنٹس اور پیجز جو عوامی رائے کو اثرا انداز کرنے کے لیے منظم انداز میں ایسا رویہ اختیار کرنے کی کوششیں کریں جس کی تصدیق نہ کی جا سکے۔ وہ ’کوآرڈینیٹڈ اِن اتھینٹک بیہیویئر‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں ماضی میں بھی فیس بک اور سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے صارفین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
اب فیس بک نے ایک بار پھر پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے صارفین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کے الزام میں اکاؤنٹس اور گروپس بند کیے ہیں۔
صارفین پر اثرا انداز ہونے کی ایسی کوششوں کے خلاف کارروائی سے متعلق فیس بک کی طرف سے ہر ماہ رپورٹ جاری کی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک رپورٹ میں رواں برس اپریل میں بند کیے گئے اکاؤنٹس کی تفصیل دی گئی ہے۔
فیس بک کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اپریل میں فیس بک کے 40 اکاؤنٹس، 25 پیجز، چھ گروپس اور انسٹاگرام کے 28 اکاؤنٹس مستقل طور پر بند کیے گئے ہیں۔
فیس بک کی اس رپورٹ کی تیاری میں مدد کرنے والی کمپنی ’گرافیکا‘ نے بھی اس بارے میں پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مستقل بند کیے گئے مذکورہ گروپس کمرشل مقاصد کے لیے مختلف کمپینز یا مہم چلانے کی واضح مثال ہیں۔
گرافیکا کے مطابق ان اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی پروموٹ کیا گیا اور مختلف ویڈیوز پیش کی گئی ہیں جن میں عمران خان کے انٹرویوز کے کلپس شامل ہیں۔ جب کہ جعلی میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے وزیرِ اعظم کی کرونا وبا کے خلاف مہم کی بھی تشہیر کی گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کمپینز میں عمران خان کو عالمی سطح کے ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بیجنگ سے واشنگٹن تک اثر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان اکاؤنٹس اور گروپس کے ذریعے پاکستان میں اپوزیشن کے رہنماؤں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو ملک دشمن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
گرافیکا کی تحقیقات کے مطابق ’الفا پرو‘ نامی کمپنی کا دفتر اسلام آبادمیں ہے جس نے 25 سے زائد جعلی میڈیا کے اکاؤنٹس بنا رکھے تھے۔ ان جعلی میڈیا اکاؤنٹس میں فری لانس صحافی میزبان بن کر پیش ہوتے تھے۔
گرافیکا کا کہنا ہے کہ ان افراد کے بارے میں تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ آیا جو کچھ وہ کر رہے تھے وہ مکمل طور اس سے آگاہ تھے یا انہیں صرف استعمال کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ الفا پرو کی طرف سے جو پوسٹس کی گئی ہیں ان میں پاکستان کی افواج کی تعریف کی گئی۔ جب کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی حمایت، بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مبینہ مظالم اور سی پیک منصوبوں کی تشہیر کی گئی تھی۔
الفا پرو کے تحت کام کرنے والے اکاؤنٹس ’سی جے پوسٹ‘ کے ذریعے مختلف ممالک کے نام بھی استعمال ہوتے رہے اور مختلف گروپس بنا کر کام کیا گیا۔
گرافیکا کا کہنا ہے کہ ایک شخص اینڈریو ہملٹن کو اینکر بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ جب کہ کیوبن نژاد یہ اداکار معاوضے کے لیے وائس اوورز اور اداکاری کے لیے خدمات پیش کرتے ہیں۔
فیس بک کا کہنا ہے کہ سی جے پوسٹ اور دیگر اکاؤنٹس کو آٹھ لاکھ کے قریب افراد فالو کرتے ہیں۔ جب کہ انسٹا گرام کے فالوورز کی تعداد دو ہزار چار سو کے قریب ہے۔
الفا پرو کمپنی آئی ایس پی آر کی مدد سے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے دستاویزی فلم بھی بناتی رہی۔ اس دستاویزی فلم کا نام ’اِن وزیبل ریزالو‘ تھا اور فروری 2020 میں بھارت کی طرف سے فضائی خلاف ورزی اور پاکستان کے بھارت کے جہاز تباہ کرنے کے بارے میں بنائی گئی اس دستاویزی فلم کو رواں سال فروری میں پیش کیا گیا تھا۔
الفا پرو کے تحت چلنے والے دیگر اکاؤنٹس میں ’ایک منٹ ایک خبر‘، ’اصل بات‘، ’پورو فائلز‘ اور ’پاکستان میڈیا چیک‘ شامل ہیں۔ البتہ اب ان اکاؤنٹس کو بند کر دیا گیا ہے۔
اس بارے میں تاحال حکومت کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
’آزادیٔ اظہار سے تعلق نہیں‘
اس صورتِ حال کے بارے میں ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کی صدف بیگ کہتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں پہلی بار ایسے اکاؤنٹس بند نہیں ہوئے بلکہ ماضی میں بھی ایسے اکاؤنٹس بند کیے گئے۔ ایسے اکاؤنٹس کے ذریعے صارفین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
صدف بیگ کا کہنا تھا کہ ایسے اکاؤنٹس کا آزادیٴ اظہار رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے ذریعے عام طور پر صرف ایک بیانیے کو مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فیس بک ایسے اکاؤنٹس پر نظر رکھتا ہے اور ان کے خلاف ایکشن لیتا ہے۔
’بائٹس فار آل‘ کے ہارون بلوچ کہتے ہیں کہ اس طرح کے اکاؤنٹس صارفین پر اپنے رائے مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جو زیادہ تر اکاؤنٹس بند ہوئے ان کے بارے میں تصدیق کی گئی کہ وہ باضابطہ طور پر کچھ کمپنیوں کی مدد سے چلائے جا رہے تھے۔ ماضی میں بھی ایسے اکاؤنٹس راولپنڈی سے چلائے جا رہے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے بعض اطلاعات موجود ہیں کہ چند کمپنیاں پیسوں کے عوض اپنی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ بعض کمپنیوں پر ریاستی اداروں کے ماتحت ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ البتہ حکومتی افراد، ادارے اور حکام اس کی تردید کرتے ہیں۔