وزیرِ اعظم عمران خان نے آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم ایمیزون کی سیلر لسٹ میں پاکستان کو شامل کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ایمیزون کی سرگرمیوں کے آغاز سے نوجوانوں کو مواقع میسر آئیں گے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ایمیزون نے بالآخر پاکستان کے تاجروں کو اپنے نظام کے ذریعے اشیا کی برآمد کی منظوری دے دی ہے۔
نوجوانوں کے لیے مواقع میسر آنے پر ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے نئی نسل برآمدی منڈیوں میں قدم رکھنے کے قابل ہو گی۔ جب کہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی نئے مواقع میسر آئیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ دنیا کا بڑا آن لائن شاپنگ پلیٹ فارم ’ایمیزون‘ پاکستان کو اپنی سیلر لسٹ یعنی فروخت کنندہ کی فہرست میں آئندہ چند روز میں شامل کر لے گا۔
وزیرِ اعظم کے مشیرِ تجارت و سرمایہ کاری عبد الرزاق داؤد اپنے ایک ٹوئٹ میں تصدیق کی ہے کہ پاکستانی حکام گزشتہ ایک سال سے ایمیزون سے رابطے میں تھے جس کے بعد اب یہ اقدام ممکن ہوا ہے۔
ایمیزون کی آمد کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے نوجوانوں، چھوٹے کاروباری اداروں اور خواتین کو فائدہ ہوگا۔
جمعرات کو رزاق داؤد کے اس بیان سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان کے ترجمان اور معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں جو کام گزشتہ 10 سال میں نہیں ہو سکا تھا وہ موجودہ حکومت نے کر دکھایا ہے اور پاکستان کا نام ایمیزون کی سیلر لسٹ میں شامل ہو گیا ہے۔
ایمیزون کی سیلر لسٹ میں نام شامل ہونے پر شہباز گل کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان عالمی منڈی میں شامل ہو گیا ہے۔
وزیرِ اعظم کے ترجمان نے عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمیزون کی سیلر لسٹ میں شامل ہونے سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی اور صارفین کو فراہم کی جانے والی مصنوعات کی خبروں پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’ٹیک جوس‘ کے مطابق سیلر لسٹ میں شامل ہونے سے پاکستان میں موجود افراد ایمیزون پر اپنا اکاؤنٹ بنا کر پاکستان کے بینکنگ کے نظام کے ذریعے کاروبار کرنے کے اہل ہوں گے۔
اس حوالے سے نیویارک میں موجود ’ابیکس کیمریج پارٹنر‘ نارتھ امریکہ کے منیجنگ ڈائریکٹر شعیب خان کا کہنا ہے کہ ایمیزون دنیا کی بڑی ای-کامرس کمپنی ہے۔ چوںکہ دنیا میں ہر شخص اس سے واقف ہے اس لیے یہ ٹرینڈز سیٹر بھی ہے۔ امریکہ کے ساتھ پوری دنیا میں ایمیزون پر کاروبار وسعت اختیار کر رہا ہے۔
پاکستان کا نام سیلر لسٹ میں آنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی تو یہ ابتدائی خبر ہے کہ پاکستان کا نام سیلر لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی طور پر چند کمپنیوں کے نام فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔ آنے والے وقت میں اس میں اضافہ ہوگا۔
دوسری جانب ادائیگیوں کے حوالے سے ’آوانزا پریمئر پیمنٹس سروسز‘ کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) عدنان علی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کاروبار کے لیے ادائیگی کا نظام تو موجود ہے اور کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے خریداری کرکے رقم ٹرانسفر کی جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل کام ہے البتہ ’پے پال‘ کے ذریعے ادائیگیوں کا ایک آسان طریقہ موجود ہے لیکن یہ ابھی پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کو پہلے ایمیزون پر اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے امریکہ یا کسی اور ملک میں شراکت دار بنانا پڑتا تھا جو کہ وہاں رجسٹر کروا کر ان مصنوعات کو ایمیزون پر فروخت کے لیے پیش کرتا تھا۔ اس طرح ریونیو تو آتا تھا لیکن وہ تقسیم ہو جاتا تھا اور پاکستان میں موجود تاجر کو بیرونِ ملک موجود شراکت دار پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔
ایمیزون پر کمپنیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے شعیب خان نے کہا کہ پاکستان کی حکومت نے ابھی 38 اداروں کے نام دیے ہیں جو ایمیزون پر کاروبار کر سکیں گے۔ البتہ آنے والے وقت میں اس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس سے نوجوانوں، گھروں میں چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی خواتین اور چھوٹے کاروباروں کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائل، اسپورٹس کی مصنوعات اور سرجیکل آلات برآمد کرتا ہے۔ ان کے لیے بھی ایمیزون ایک بہت اچھا پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔
شعیب خان نے مزید کہا کہ امریکہ یا کسی اور ملک میں اگر ایمیزون سے کوئی چیز منگوائی جائے اور وہ اس معیار کی نہ ہو تو اس کو واپس کرنے پر صارف کے اخراجات نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے پاکستان میں کاروبار کرنے والوں کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کن چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں کاروباروں کے ایمیزون پر رجسٹر ہونے کی اہمیت کے حوالے سے عدنان علی نے بتایا کہ ایمیزون کے پاکستان آنے سے اب یہاں کی مصنوعات اس پلیٹ فارم پر براہِ راست فروخت کے لیے پیش کی جا سکیں گی۔ کوئی بھی کاروبار کرنے والا شخص ایمیزون پر رجسٹر ہو کر آن لائن اپنا اسٹور بنا لے گا اور مصنوعات فروخت کے لیے پیش کر دے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں اگر ایمیزون سے پاکستان کی برآمدات ایک ارب ڈالرز تک بھی پہنچ جائیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے کے امکانات تو ہیں لیکن اس کا زیادہ اثر برآمدات پر ممکنہ طور پر ہوگا۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں واقع پاکستانی قونصل خانے نے ایک آن لائن میٹنگ کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں ایمیزون کے سابق سینئر ایگزیکٹو عمر گاجیل نے شرکا کو بتایا تھا کہ ایمیزون کی پاکستان آمد سے کاروبار کرنے والوں کو کیسے فوائد حاصل ہوں گے۔
ایمیزون ای-کامرس کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جسے دنیا میں ٹیکنالوجی کی پانچ بڑی کمپنیوں گوگل، ایپل، مائیکرو سافٹ اور فیس بک کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے۔ ایمیزون پر ایک جانب صارفین آن لائن شاپنگ کر سکتے ہیں تو دوسری جانب کاروباری اداروں اور افراد کے لیے مواقع موجود ہیں کہ وہ اپنی مصنوعات اس پر فروخت کے لیے پیش کریں۔ اس طرح صارفین کو خریداری میں بھی آسانی رہتی ہے اور کاروبار کرنے والوں کو اپنی مصنوعات زیادہ صارفین تک پہنچانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا پہلے ہی ایمیزون کی سیلر لسٹ پر موجود ہیں۔ ایمیزون نے بھارت میں 2012 میں اپنی سروسز کا آغاز کیا تھا۔
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق ایمیزون نے اپنا سب سے بڑا دفتر بھارت کے شہر حیدرآباد میں قائم کیا ہے جو 15 منزلہ عمارت پر مشتمل ہے جب کہ اس کا رقبہ فٹ بال کے 65 میدانوں کے برابر ہے۔
مبصرین کے مطابق محفوظ انداز میں رقم کی آن لائن پیمنٹ کا نظام نہ ہونے کے باعث ایمیزون اب تک پاکستان کی مارکیٹ میں داخل ہونے میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔
لوگوں کو چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں معاونت کرنے والے ادارے ’اِن ایبلرز‘ کے مطابق پاکستان کا نام ایمیزون کی سیلر لسٹ میں اپریل میں شامل کیا جانا تھا۔ البتہ اب مئی میں ہی پاکستان کا نام سیلر لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔
’اِن ایبلرز‘ کے مطابق پاکستانی حکام کوشاں ہیں کہ عید سے قبل پاکستان کا نام لسٹ میں شامل ہو سکے۔
ایمیزون کی آمد کے اعلان پر سوشل میڈیا پر بھی صارفین اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
صحافی سید رضا مہدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ای-کامرس کے ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی خوش قسمت پاکستانی فروخت کنندہ لاکھوں ڈالر کما سکیں گے۔
کچھ صارفین نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایمیزون کے سربراہ کو بھی مبارک باد پیش کی۔
ایک صارف اسامہ بن ساجد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایمیزون کے بعد پے پال کو بھی پاکستان لایا جائے۔
ایم بلال نامی صارف نے پاکستان کی آن لائن شاپنگ کے پلیٹ فارم کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ برائے مہربانی اس کو ’دراز‘ نہ بنائیے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے لیے ایک نادر موقع ہے۔ لیکن بحیثیت قوم ہمیں درست فیصلہ کرنا ہوگا اور پاکستان کی مصنوعات کو عالمی سطح پر برانڈ بنانا ہوگا۔
ایک صارف ایف ڈبلیو خان کا کہنا تھا کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ایمیزون ’دراز‘ بھی خرید لے گا۔