آب و ہوا کے تحفظ کی علمبرار تھن برگ نے جمعرات کو کہا ہے کہ توانائی کی عالمی صنعت پر اگر عالمی دباؤ نہ ڈالا گیا تو جہاں تک ممکن ہے وہ اپنی پیش رفت جاری رکھے گی اور معدنی اینڈھن میں سرمایہ کاری کرتی رہے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں اپنے مفاد کے لیے لوگوں کا استحصال جاری رکھیں گی۔
فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سوئٹرز لینڈ کے شہر ڈیوس کے ایک تفریحی مقام پر بین الاقوامی توانائی کی ایجنسی آئی ای اے کے سربراہ فاتح بیرول اور تھن برگ اور ان کے ساتھیوں کے درمیان بات چیت کے موقع پر تحفظ ماحولیات کے کارکنوں نے انہیں ایک خط پیش کیا جس میں ان سے تیل، گیس اور کوئلہ نکالنے کے نئے منصوبے روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ معدنی ایندھن کا استعمال کم کرنے اور شفاف توانائی کی جانب منتقلی کی ضرورت ہے تاکہ کرہ ارض کو گرم ہونے سے بچایا جا سکے۔۔
اس سے قبل کانفرنس کے منتظمین نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو ایک بیان میں کہا کہ تھن برگ اپنی مہم کی ساتھیوں ہیلینا گوالنگا ونیسا نکاتے اور لوئسا نباور کے ساتھ بائرل سے ملاقات کر رہی ہیں۔ آئی ای اے نے ، جو عالمی توانائی کے بارے میں پالیسی سے متعلق سفارشات ترتیب دیتا ہے فوری طورپر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
تھن برگ کو منگل کے روزجرمنی میں پولیس نے مظاہروں کے دوران ماحولیات کے دوسرے سرگرم کارکنوں کے ساتھ گرفتار کرنے کے بعد رہا کر دیا تھا ۔
تھن برگ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ کل میں اس گروپ میں شامل تھی جس نے جرمنی میں کوئلے کی ایک کان کی توسیع پر پر امن مظاہرہ کیا تھا ۔ ہمیں پولیس نے گھیرے میں لیا اور پھر گرفتار کیا لیکن بعد میں اسی شام رہا کر دیا ۔ انہوں نےمزید کہا کہ آب وہوا کا تحفظ کوئی جرم نہیں ہے۔
امریکہ کے سابق نائب صدر ایل گور نے ڈیوس میں کہا کہ وہ جرمنی میں تھن برگ کی کوششوں سے اتفاق کرتے ہیں اور یہ کہ آب وہوا کا بحران اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بد تر شکل اختیار کر رہا جتنی تیزی سے دنیا اس سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم جیت نہیں رہے۔
عالمی اقتصادی فورم کے ایک پینل کے سامنےایل گور نے کہا کہ بحران اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بدتر ہورہا ہے جتنی تیزی سےہم ان کےحل ترتیب دےرہےہیں۔
تھن برگ نے جن کے بارے میں اس وقت کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں ، جنوری 2020 میں ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کی تھی اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت ، عالمی رہنماؤں کو آب وہوا کی تبدیلی پر اقدامات کرنےپر زور دیتےہوئے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ابھی تک آگ لگی ہوئی ہے۔
وہ سوئٹزر لینڈ کے ایک تفریحی مقام ’سوس اسکی‘ میں اہم موضوعات پر گفتگو کے لیے اکھٹے ہونے والے کاروباری اور سیاسی رہنماؤں کے اجتماع کے موقع پر مظاہروں میں حصہ لے چکی ہیں۔
آب و ہوا کی تبدیلی اس سال کے اجلاس کےایجنڈےمیں ایک مرکزی موضوع ہے ۔ اجلاس کے دوران تیل کی بڑی کمپنیوں کے کردار کے خلاف بھی مظاہرےہوچکے ہیں ۔ سر گرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں گلوبل وارمنگ سے نمٹنے طریقوں پر بحث کو ہائی جیک کر رہی ہیں۔
بی پی، شیوران ، اوکسی ڈینٹل پیٹرولیم اور سعودی آرامکو سمیت توانائی کی بڑی کمپنیوں کے نمائندے اس اجتماع میں شرکت کرنےوالے کاروباری رہنماؤں میں شامل ہیں ۔
اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل اینتونیو گوئتریس نے بدھ کے روز عالمی اقتصادی فورم کے شرکاء پر زور دیا تھا کہ وہ کاربن کے اخراج کے مکمل خاتمے کے لیے قابل اعتماد اور ذمہ دارانہ وعدے کریں ۔
اس ہفتے سوشل میڈیا کی ایک مہم میں تیل اور گیس کی کمپنیوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک غیر منافع بخش ویب سائٹ پر تھن برگ اور سرگرم کارکنوں کے تعاون سے چلائی گئی مہم کے حق میں ساڑھےآٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ دستخط کر چکےہیں۔
سوشل میڈیا کی اس مہم میں یہ مطالبہ کیا گیا ہےا کہ توانائی کی کمپنیوں کے سی ای اوز فوری طور پر تیل ، گیس یا کوئلہ نکالنے کے مقامات پر نئی کھدائی کو روک دیں اور شفاف توانائی کی طرف منتقلی کا راستہ روکنا بند کریں جس کی ہم سب کو فوری طور پر ضرورت ہے ۔
اس مہم میں یہ دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی اور مزید مظاہرے کیے جائیں گے۔
تیل اور گیس کی صنعت نے کہا ہے کہ اسےتوانائی کی منتقلی کا حصہ بننے کی ضرورت ہے کیوں کہ دنیا کے ملکوں کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں او ر معدنی ایندھن توانائی کے شعبے میں مسلسل اہم کردار ادا کرے گا۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔