رسائی کے لنکس

بھارت میں قبائلی خواتین کی اکثریت اپنے خلاف تشدد کو مردوں کا حق سمجھتی ہے: سرگرم کارکن


جھار کھنڈ کی ایک 14 سالہ قبائلی لڑکی ، جس کی بچپن میں شادی ہوئی، کولکتہ، بھارت میں اپنے شوہر کےتشدد سے جسم پر لگےزخموں کے ساتھ ۔ (فوٹو آرتی منڈا/وی او اے)
جھار کھنڈ کی ایک 14 سالہ قبائلی لڑکی ، جس کی بچپن میں شادی ہوئی، کولکتہ، بھارت میں اپنے شوہر کےتشدد سے جسم پر لگےزخموں کے ساتھ ۔ (فوٹو آرتی منڈا/وی او اے)
  • گھریلو تشدد کا مسئلہ خواہ وہ جسمانی، جذباتی، زبانی اور جنسی کوئی بھی ہو، بھارت کی قبائلی برادریوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔
  • اندازے بتاتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں ہر سال 60 سے 70 کے درمیان خواتین کو "جادو ٹونے" کے الزام میں قتل کیا جاتا ہے، جن میں سے اکثر کا تعلق مقامی قبائل سے ہوتا ہے۔
  • جسمانی طور پر بہت مضبوط ہونے کے باوجود، قبائلی خواتین اکثر صرف اس لیے شدید مار پیٹ کا شکار ہوتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا مردوں کا حق ہے۔
  • ان براد ریوں میں والدین اکثر شراب کے نشے میں رہتے ہیں اور قبائلی بچے ، خاص طور پر لڑکیاں - اکثر بدسلوکی، صدمے اور بہت سے معاملات میں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

اٹھارہ سالہ جیا کا تعلق بھارت کی ریاست جھارکھنڈ کے منڈا قبیلے سے ہے۔ اس ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اپنے والد کو کبھی نہیں دیکھا۔

کھیتوں میں دہاڑی پر پر کام کرنے والی جیا کی ماں، 2013 میں، اپنے شرابی شوہر کے تشدد کی وجہ سے اپنی دو بیٹیوں کو لے کر رانچی میں اپنے گھر سےبھاگ کر اپنے میکے چلی گئی تھیں جہاں وہ گاؤں میں اپنے والدین کی زمین پر برہتی ہیں۔

"میرے والد بلا کے شرابی ہیں اور ہر وقت نشے میں دھت رہتے ہیں۔جب ہم ان کے ساتھ رہتے تھےتو وہ ہر روز میری ماں، میری بہن اور مجھے بری طرح مارا پیٹا کرتے تھے،" جیا نے VOA کے ساتھ ایک فون انٹرویو میں کہا، اس نے اپنی حفاظت کی وجہ سےکہا ہےکہ اس کا اصل نام استعمال نہ کیا جائے۔

انڈیا کے پانچویں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، 30 فیصد سے زیادہ وہ بھارتی خواتین جن کا تعلق حکومت کی طرف سے تسلیم شدہ قبائلی اور مقامی پسماندة کمیونٹیز اور قبائل شیڈولڈ ٹرائب سے ہے - حز - کو مبینہ طور پر جسمانی گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کا مسئلہ خواہ وہ جسمانی، جذباتی، زبانی اور جنسی کوئی بھی ہو، بھارت کی قبائلی برادریوں میں بڑھتا جا رہا ہے اور ایسے بعض علاقوں میں شراب نوشی کی گہری جڑیں ہیں۔ اس معاملے میں زیادہ تر کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

ہر گھرمیں تشدد

جھارکھنڈ کے قبائل میں صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’آہان فاؤنڈیشن‘ کی بانی رشمی تیواری نے وی او اے کو بتایا کہ جن لڑکیوں کے ساتھ وہ کام کر چکی ہیں ان میں سے 100 فیصد کو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے یا انہوں نے اسے ہوتے پوئےدیکھا ہے۔

وہ کہتی ہیں،"گھریلو بدسلوکی جھارکھنڈ میں قبائل کے سماجی تانے بانے کا ایک حصہ بن چکی ہے، اور اس کی زیادہ تر وجہ شراب نوشی اور وراثت میں ملنے والا صدمہ ہے۔ جسمانی طور پر بہت مضبوط ہونے کے باوجود، قبائلی خواتین اکثر صرف اس لیے شدید مار پیٹ کا شکار ہوتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا مردوں کا حق ہے،‘‘ تیواری نے کہا۔

تیواری نے کہا۔"ہادیہ، ایک دیسی اشراب والا مشروب جو خمیر شدہ چاول کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے، روایتی طور پر بھارت کی قبائلی برادریوں میں گرمی دور کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اب یہ ہر دوسرے دیہی قبائلی گھر میں تیار کیا جاتا ہے، جس میں فوری ابال لانے اور بڑے پیمانے پر فروخت کرنےکے لیے کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں،"بہت سے سماجی اقتصادی طور پر پسماندہ خاندانوں کے لیے، ہادیہ کو بیچنا ہی معاش کا واحد ذریعہ ہو سکتا ہے - اور اکثر ان کے خاندان کی ثقافت کا حصہ بن جاتا ہے۔" انہوں نے کہا۔

مشرقی بھارت میں ایک قبائلی خاتون ہادیہ بیچ رہی ہے، جو ایک دیسی الکوحل والا مشروب ہے، فوٹو 30 مارچ (Ajharul Pathan)
مشرقی بھارت میں ایک قبائلی خاتون ہادیہ بیچ رہی ہے، جو ایک دیسی الکوحل والا مشروب ہے، فوٹو 30 مارچ (Ajharul Pathan)

جیا نے، جو اپنےنانا، نانی، ماموں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ رہتی ہیں، کہا کہ وہ "یہاں بھی خوش نہیں ہیں ہیں۔" "میرے نانا، جو ایک کھیت مزدور ہیں، اکثر کام کے بعد تھکن دور کرنے کے لیے دارو پیتے ہیں۔"

اس نے VOA کو بتایا۔ ، جب وہ نشے میں ہوتے ہیں تو وہ میری ماں کو اور مجھے بہت بری طرح مارتے ہیں۔ بعض اوقات وہ ہمیں کھانا بھی نہیں دیتے۔ خاندان کا کوئی دوسرا فرد انہیں روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتا، کیونکہ یہ سلوک عام بات سمجھا جاتا ہے۔‘‘

’وچ ہنٹ‘ یا چڑیل کا شکار

نئی دہلی میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم شکتی واہنی کے شریک بانی رشی کانت نے وی او اے کو بتایا کہ"جھارکھنڈ کے قبائل میں توہم پرستی غالب ہے، اور خواتین اور لڑکیوں کو اکثر اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک پریشان کن لیکن عام طریقہ ہے جادوگرنی کا شکار کرنا۔"

انہوں نے کہا۔ "اگر خاندان میں کوئی مسئلہ ہو، جیسے بیماری یا بے روزگاری، تو گھر کی عورت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ، وہ بہو، کوئی جوان لڑکی،یا بوڑھی دادی ہوسکتی ہے۔"

سامان بیچنے والی یہ لڑکی ہندوستان کے جھارکھنڈ کے بہت سے قبائلی بچوں کی طرح ہے جو گھریلو تشدد اور غربت کی وجہ سے بالغوں جیسی ذمہ داریاں اٹھانے پر مجبور ہیں۔ (آرتی منڈا/وی او اے)
سامان بیچنے والی یہ لڑکی ہندوستان کے جھارکھنڈ کے بہت سے قبائلی بچوں کی طرح ہے جو گھریلو تشدد اور غربت کی وجہ سے بالغوں جیسی ذمہ داریاں اٹھانے پر مجبور ہیں۔ (آرتی منڈا/وی او اے)

کانت نے کہا کہ اسے’ آسیب کا قبضہ' سمجھا جاتا ہے، عورت کومارا پیٹا جاتا ہے، درخت سے ہاتھ یا پاؤں کے بل لٹکایا جاتا ہے اور اس کے جسم کو مسخ کیا جاتا ہے۔

بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو، یا این سی آر بی کے مطابق، 2022 میں، جھارکھنڈ میں جادوگرنی کے شکار کے 11 واقعات درج ہوئے تھے،جو قتل میں ختم ہوئے۔

اندازے بتاتے ہیں کہ جھارکھنڈ میں ہر سال 60 سے 70 کے درمیان خواتین کو "جادو ٹونے" کے الزام میں قتل کیا جاتا ہے، جن میں سے اکثر کا تعلق مقامی قبائل سے ہوتا ہے۔

ان بچوں کے والدین اکثر شراب کے نشے میں رہتے ہیں اس کی وجہ سے، قبائلی بچے ، خاص طور پر لڑکیاں - اکثر بدسلوکی، صدمے اور بہت سے معاملات میں انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

وی او اے کی سارہ عزیز کی رپورٹ۔

فورم

XS
SM
MD
LG