ہر سال کی طرح اس سال بھی خواتین کے عالمی دن پر عورت مارچ کا انعقاد ہوگا اس بات کا سب کو یقین تھا۔ لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں عورت مارچ جب آٹھ مارچ کے بجائے 12 مارچ کو کرنے کا اعلان سامنے آیا تو یہ سب کے لیے حیران کن تھا۔
عورت مارچ کی منتظم شیما کرمانی نے مارچ کی تاریخ کی تبدیلی کی وجہ بتائی کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محنت کش عورتوں کو ان کی فیکٹریوں، دفاتر سے چھٹی نہیں دی جارہی تھی اس لیے مارچ کی تاریخ کو اتوار کے روز رکھا گیا۔
لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والے عورت مارچ اور ان میں ہونے والی بدنظمی کے بعد سب کی نگاہیں کراچی کے عورت مارچ پر ٹھہر سی گئیں۔ یہ چھٹا عورت مارچ تھا جو اس بار برنس گارڈن میں منعقد کیا جارہا تھا۔ جس کا عنوان 'ریاست جواب دو، بھوک کا حساب دو' رکھا گیا تھا۔
میرے لیے اس مارچ میں شرکت اور رپورٹنگ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن اس بار مجھے جس بات نے حیران کیا وہ مارچ سے تین روز قبل ملنے والا ایک لنک تھا جس کے ذریعے مجھے اپنی رجسٹریشن کروانی تھی۔ اس لنک کو کھولنے کے بعد جو واضح احکامات دکھائی دیے وہ یہ تھے کہ اگر آپ کا تعلق کسی یو ٹیوب چینل سے ہے تو آپ اس مارچ میں رپورٹنگ کی غرض سے شرکت نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر آپ کسی نیوز چینل سے تعلق رکھتے ہیں تو پچھلے پانچ برسوں میں ہونے والے عورت مارچ کے دس سے پندرہ کوریج کے لنکس اٹیچ کریں۔
اس شرط پر بہت سے صحافیوں نے اعتراض کرتے ہوئے مارچ کی منتظمین سے شکایت کی جس کے بعد انہیں ایک واٹس ایپ گروپ میں ایڈ کرنے کے بعد یہ کہا گیا کہ وہ مارچ کے روز اپنے ادارے کا کارڈ دکھا کر کوریج کے لیے آسکتے ہیں۔
کوریج کے لیے میں نے پریس کلب سے برنس گارڈن کا راستہ جو تقریباً ڈیڑھ سے دو کلو میٹر کا تھا، پیدل طے کیا۔ شام چار بجے کے وقت پارک سے کچھ دور پانچ بڑی بسیں دکھائی دیں جن سے اتر کر خواتین سائے کی تلاش میں تھیں۔
پارک میں داخل ہوتے ہی کچھ والنٹئیرز نے مجھ سے اور کیمرامین سے ادارے کا کارڈ طلب کیا اور ہمارے بیگز کی تلاشی لی جس کے بعد ہمیں میڈیا پاسز جاری کردیے گئے۔ لیکن اچانک میرے بیگ میں انہیں پانی کی ایک بوتل نظر آئی تو انہوں نے مجھ سے اس پانی کو پینے کا کہا۔
مجھے لگا کہ وہ مجھ سے یہ پوچھ رہی ہیں کہ یہ بوتل آپ کی ہے لیکن دوسری لڑکی نے کہا کہ آپ اس بوتل کو کھولیں اور پانی پی کر دکھائیں۔ میں نے ان کے کہنے پر عمل کیا جس کے بعد مجھے اندر جانے کی باقاعدہ اجازت مل گئی۔
چند قدم کے فاصلے پر مجھے اسی مارچ کی ایک منتظم ملیں جن سے میں نے پانی کی بوتل والا واقعہ بیان کیا جس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ مارچ کے شرکاء کو ملنے والی دھمکیوں کے سبب یہ چیک کیا گیا کہ آپ کوئی نقصان دہ چیز تو نہیں لے جارہیں اس لیے اس کی تسلی کی گئی ہے۔
آدھے گھنٹے کے بعد مجھے وہ خواتین جو بسوں سے اتریں تھی اندر آتی دکھائی دیں یہ محنت کش خواتین ماہی گیروں کی بستی ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ سے آئی تھیں جن کی تعداد لگ بھگ تین سو سے زائد تھی۔ چوں کہ نعرہ 'ریاست جواب دو بھوک کا حساب دو' تھا اس لیے میری دلچسپی ان خواتین سے بات کرنے میں تھی۔
انہی خواتین میں موجود ابراہیم حیدری کی شہربانو نے بتایا "ہمارے مرد ماہی گیر ہیں ہم جھینگوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں۔ اس بڑھتی مہنگائی کے سبب اب ہماری دو وقت کی روٹی ایک وقت کی ہوگئی ہے۔"
پروین نواز ریڑھی گوٹھ سے یہاں اپنی دیگر ساتھیوں کے ہمراہ نیم کے پیڑ تلے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے مطابق تیل مہنگا ہونے سے اب ہمارے مرد سمندر میں شکار کے لیے دور نہیں جاپاتے۔ تیل مہنگا ہوا ہے تو ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے نہ شکار مل پاتا ہے نہ گھر کا خرچہ چل پاتا ہے۔
صدیقہ بھی پہلے جھینگوں کی صفائی کا کام کرتی تھیں لیکن اب اس کام میں کم اجرت کے باعث وہ کورنگی کی ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے لگی ہیں۔ ان کے مطابق، "میرے چھ بچے ہیں شوہر ماہی گیری کرتے ہیں۔ شکار کے لیے بڑے بڑے ٹرالر کی وجہ سے عام ماہی گیر کو بہت نقصان ہوا ہے۔ ہر چیز اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ گزارہ مشکل ہے۔"
صدیقہ نے بتایا کہ ان کے بچے اب اسکول نہیں پڑھتے اور انہیں کام پر لگا دیا گیا ہے۔ ان کے بقول، "میں ایک فیکٹری میں کام کرتی ہوں جہاں مجھے بیس ہزار ملتے ہیں جس میں چنگچی کے کرائے بھی دیتی ہوں اور گھر کا راشن بھی لیتی ہوں۔ ہماری اس بدحالی کا حساب حکومت کیوں نہیں دیتی؟"
ان تمام خواتین میں ایک ستر سالہ بوڑھی خاتون حوا بی بی بھی موجود تھیں جو مارچ کی گہما گہمی سے پیٹھ کیے بیٹھی تھیں۔ عورت مارچ میں شرکت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ، میں ہر سال اپنی بستی کی ان عورتوں کی ہمت بڑھانے کے لیے ان کے ساتھ آتی ہوں۔ جب مزدور طبقے کے حقوق کی بات ہو تو میں سنتی ہوں خوش ہوتی ہوں کہ چلو کسی کو تو ہم یاد ہیں۔ لیکن یہ جو جوان بچے بچیاں یہاں آتے ہیں نعرے لگاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے کہ اگر ان پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہورہی ہے تو ہمارا تو اللہ ہی مالک ہے۔
اس مارچ میں بھی جبری گمشدیوں، جبری تبدیلی مذہب، کم عمری کی شادی، پدرشاہی نظام، تنخواہو ں میں کمی، مہنگائی، خواجہ سراؤں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک، گھریلو تشدد، جائیداد میں خواتین کو حصہ نہ ملنے جیسے موضوعات پر نہ صرف بات کی گئی بلکہ شرکاء پلے کارڈز بھی ساتھ لے کر آئے۔
تقاریر زور و شور سے جاری تھیں کہ اسی دوران اسٹیج کے قریب دو مردوں کی مارچ کی منتظمین سے کچھ بحث ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ان مردوں کو زبردستی اسٹیج کے قریب سے ہٹادیا گیا۔ وجہ جاننے پر معلو م ہوا کہ ایک صاحب اس بات پر بضد تھے کہ وہ خواتین کے لیے لکھی گئی نظم اسٹیج پر جا کر پڑھیں گے جو اس مارچ میں شریک ہونے والی خواتین کے نام ہے۔ لیکن انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی جس پر بحث تکرار میں تبدیل ہوگئی۔
ماہی گیروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی سرگرم سماجی رکن فاطمہ مجید کا کہنا تھا کہ اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ساحلی علاقوں میں بسنے والے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ تمر کے جنگلات کی کٹائی اور سمندری علاقوں میں ہونے والی تعمیرات سے جہاں سمندری حیات کو نقصان پہنچا ہے وہیں سمندری آلودگی نے بھی ماہی گیروں سے ان کا روزگار چھین لیا ہے۔ اگر ان مسائل پر بر وقت ایکشن نہ لیا گیا تو کلائمیٹ ایمرجنسی کے نتیجے میں لاکھوں خاندان دربدر ہونے کے ساتھ بھوک اور افلاس کا شکار بھی ہوجائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خواجہ سرا کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے میرب معیز اعوان نے کہا کہ ایک جانب مہنگائی کا طوفان ہے جس کے سبب غریب طبقہ پس کر رہ چکا ہے، بے روزگاری بڑھ چکی ہے، اجرت کم ہے، خاندان فاقوں سے یا پھرخودکشیوں سے مر رہے ہیں۔ روزانہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی بات کی جاتی ہے یہ بتایا جاتا ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے۔
ان کے بقول، اسی ملک میں روئیت ہلال کمیٹی جو رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے اجلاس طلب کرے گی اس کے لیے وی آئی پی عشائیے کا آرڈر جاری کیا گیا ہے جس میں ایک سو مہمانوں کے لیے بیس ڈشز رکھی جائیں گی۔ غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے اور اس کمیٹی کو چاند دیکھنے کے بعد دم پخت پیش کیا جائے گا۔ ان حالات میں بھی حکومت اور اشرافیہ طبقہ اپنے اخراجات پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں لیکن غریب طبقہ دو وقت کی روٹی بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ایسی ناانصافی اور دہرے معیار کے خلاف آواز اٹھانا بہت ضروری ہے۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی عورت مارچ کے اختتام پر تمام شرکاء نے شیما کرمانی کی سربراہی میں برنس گارڈن سے آرٹس کونسل تک پیدل مارچ کیا۔ مارچ کے اختتام پر ایک طویل بینر جس پر 'یہ ظلم یاد رکھا جائے گا' تحریر تھا، اسے نذرِ آتش بھی کیا گیا۔
عورت مارچ کے پر امن طریقے سے اختتام پر ڈیوٹی پر مامور ایک پولیس اہلکار نے کہاکہ سب خیریت سے ہوگیا یہ عور ت مارچ کی خواتین سے زیادہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کیوں کہ جو کچھ لاہور اور اسلام آباد میں ہوا ایسا کچھ یہاں نہ ہو اس کے لیے ہم پر بہت دباؤ تھا۔ اب ہم بھی سکون سے گھر جاسکیں گے۔