افغان حکام نے کہا ہے کہ مسلح افراد نے کابل اور ملک کے دیگر علاقوں میں حملے کیے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ اتوار کی دوپہر دارالحکومت کا سفارت خانوں اور افغان پارلیمان کی عمارت کے ارد گرد کے علاقے متعدد دھماکوں اور شدید فائرنگ کے آوازوں سے گونج اُٹھے۔
طالبان نے ان منظم حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ خودکش حملہ آوروں نے نیٹو کے صدر دفاتر، سفارتی عملے کی رہائش گاہوں اور پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا۔
افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کی ایک ترجمان لارن ریگر نے بتایا کہ اطلاعات کے مطابق حملے امریکی، جرمن اور برطانوی سفارت خانوں اور اتحادی افواج کی تنصیب کے قریب ہوئے۔
’’افغان سکیورٹی فورسز ضرورت کے مطابق کارروائی کر رہی ہیں اور اگر اتحادی افواج سے درخواست کی گئی تو وہ مدد فراہم کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔‘‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ کابل میں کئی عمارتوں سے دھوئیں کے بادل بلند ہوتے دیکھائی دیے اور سفارت خانوں میں خطرے کے سائرن بھی بجائے گئے۔
طالبان نے کہا ہے کہ اُنھوں نے مشرقی شہر جلال آباد میں بھی ایک حملہ کیا۔
افغانستان کے مختلف حصوں میں اتوار کو ہونے والے حملوں میں جانی نقصانات کی سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
اُدھر پاکستاتی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کابل اور دیگر علاقوں میں حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پاکستانی عوام اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ہما وقت تیار ہیں کیوں کہ وہ مسلسل تشدد اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔
حنا ربانی کھر نے بتایا کہ حملے کے وقت پاکستانی خواتین اراکین پارلیمان کا ایک وقت بھی کابل میں موجود تھا لیکن اس میں شامل تمام افراد بخیر و آفیت ہیں۔
’’وہ (لوگ) اس وقت چانسلری کی عمارت میں ہیں، اُن کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ خیریت سے ہیں۔‘‘