اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کے جنوری سے جون تک کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران افغانستان میں پر تشدد واقعات میں شہریوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے تناسب میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 47 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان جلد کسی سیاسی حل پر متفق نہیں ہوئے تو افغانستان کے حالات خطرناک حد تک خراب ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں قائم کاردان یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے سربراہ فہیم سادات کا کہنا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں گزشتہ برس امریکہ اور طالبان میں ہونے والے امن معاہدے میں ایک شق کے مطابق افغانستان میں تشدد کے واقعات میں کمی کی جانا تھی۔ تاہم موجودہ صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فہیم سادات کا کہنا تھا کہ تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
پیر کو اقوامِ متحدہ نے افغانستان کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں برس جنوری سے جون کے درمیان 1659 افغان شہری ہلاک جب کہ 3254 زخمی ہوئے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر پر تشدد واقعات میں کمی واقع نہ ہوئی تو 2021 افغان تنازعے کا سب سے مہلک سال ثابت ہو سکتا ہے۔
فہیم سادات کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ افغانستان میں لڑائی میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے لڑائی اضلاع کی حد تک ہو رہی تھی۔ اب جب کہ طالبان نے تمام شہروں اور صوبائی مراکز کا گھیراؤ کر لیا ہے اس لیے خدشہ ہے کہ شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
فہیم سادات کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں افغانستان میں قیامِ امن کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ اگر لڑائی طول پکڑتی ہے تو شہری علاقوں میں زیادہ آبادی کی وجہ سے اموات بہت زیادہ ہو سکتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان روابط بحال ہیں اور تعطل کے واضح اشارے نہیں ملے۔
دوسری جانب طالبان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کو مکمل طور پر رد کر دیا ہے۔
طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنی کارروائیوں میں عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔
مبصرین کے مطابق یکم مئی سے افغانستان میں پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے 200 سے زائد اضلاع کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ بہت سارے اضلاع تکنیکی حکمتِ عملی کے تحت چھوڑے گئے ہیں اور بہت جلد واپس حاصل کر لیے جائیں گے۔
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اعتماد کا فقدان مزید بڑھ گیا ہے جسے سیاسی طور پر حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
امریکہ کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ڈاکٹر اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ صورتِ حال برقرار رہتی ہے تو مستقبل میں افغانستان میں زیادہ انسانی جانوں کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسفندیار میر نے مزید بتایا کہ افغانستان میں القاعدہ کے لگ بھگ 500 جنگجو موجود ہیں جن میں مرکزی قیادت، اعلیٰ معاونین، مالی معاونت کرنے والے اور القاعدہ برصغیر برانچ کے لوگ موجود ہیں۔ جب کہ کئی سرکردہ رہنما ایران یا پھر پاکستان افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ہیں۔
واضح رہے کہ دوحہ امن معاہدے کے تحت طالبان نے القاعدہ سے اپنے تعلقات ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس حوالے سے اسفندیار میر کا کہنا تھا کہ طالبان کی اس بارے میں پالیسی مبہم ہے۔
اسفندیار میر نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے القاعدہ جنگجوؤں کو کہا ہے کہ وہ افغانستان میں لو پروفائل رہیں۔
اقوامِ متحدہ نے ایک اور رپورٹ میں افغانستان میں تحریک ِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چھ ہزار تربیت یافتہ جنگجوؤں کی موجودگی کا بھی ذکر کیا ہے جو کہ زیادہ تر پاکستان کی سرحد سے قریب ترین افغانستان کے علاقے ننگرہار میں موجود ہیں۔
ڈاکٹر اسفندیار میر مزید کہنا تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا نے طالبان کے حوصلے بہت بڑھا دیے ہیں۔ اس کا اثر افغانستان سے باہر جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں دیگر جہادی تنظیموں پر بھی پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان یہ ضرور کہتے ہیں کہ افغانستان کی سر زمین کسی دوسرے مللک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ البتہ ان کی حکمتِ عملی بیرونِ ملک سے آنے والے جنگجوؤں کے حوالے سے واضح نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں طالبان کے سرکردہ رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ کسی کے کہنے پر القاعدہ یا دوسرے گروہوں سے تعلقات خراب نہیں کریں گے۔