بی بی سی کے نشریاتی ادارے کے لیے کام کرنے والے آٹھ افغان صحافیوں نے پیر کو برطانوی حکومت کے خلاف ایک قانونی چیلنج جیت لیا ہے ۔ انھیں برطانیہ کی حکومت نے افغانستان سے کہیں محفوظ جگہ منتقل کرنے سے انکار کیا تھا جب کہ ان کا موقف تھا کہ افغانستان میں انہیں طالبان حکمرانوں کے ہاتھوں مارے جانے کا خطرہ ہے۔
صحافیوں کے وکلاء نے دسمبر میں لندن کی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ان صحافیوں کو کہیں اور منتقل کرنے سے انکار کر کے ،برطانوی حکومت نے ،ان کو دھوکہ دیا۔
وکلاء نے بتایا کہ یہ صحافی فوجی اہل کاروں سے منسلک تھے اور برطانوی حکومت کے فنڈز سے چلنے والے منصوبوں پر کام کرتے تھے۔
وکلاء نے مزید کہا کہ اپنے کام کی نوعیت کے لحاظ سے ان صحافیوں نے طالبان کے خلاف موقف اختیار کیا اور ان کی بدعنوانی اور بدسلوکی کو بے نقاب کیا، جس کے نتیجے میں طالبان جنگجوؤں کی طرف سے انہیں متعدد بار دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
صحافیوں کی نمائندگی کرنے والی ایرن الکوک نے کہا کہ ان کے مؤکل پچھلے اٹھارہ ماہ سے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومت کے نمائندوں نے دلیل دی تھی کہ آٹھ میں سے کوئی ایک بھی صحافی اس پالیسی کے تحت نقل مکانی کے لیے اہل نہیں ہے جو افغانوں کی منتقلی یا امداد کی پالیسی کے بارے میں ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل ڈیوڈ بلنڈل کا کہنا تھا کہ طالبان کا یہ تاثر کہ بی بی سی برطانوی حکومت کا حصہ ہے خارج از بحث ہے۔
لیکن جج پیٹر لین نے تحریری فیصلے میں کہا کہ صحافیوں کو درپیش جو خطرات تھے،اس کے مطابق یہ تاثرواضح طور پر اس سے مطابقت رکھتا تھا۔
وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے کہا کہ محکمہ مخصوص قانونی معاملات پر تفصیل سے تبصرہ نہیں کرتا لیکن اگلے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہا ہے۔
خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا