افغانستان اور وسطی ایشیا کے ملک تاجکستان کے درمیان مرکزی گزر گاہ پر طالبان بدستور قابض ہیں جب کہ اس علاقے پر قبضے کے دوران لڑائی میں افغان فورسز کے درجنوں اہل کار پناہ کے لیے تاجکستانی علاقے میں پہنچ گئے ہیں۔
افغان حکام نے بھی سرحدی گزر گاہ پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی ہے۔
طالبان نے حالیہ عرصے میں افغانستان کے شمالی علاقوں میں بڑے پیمانے پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اور کئی دیہاتی علاقوں پر مشتمل اضلاع پر طالبان قابض بھی ہوگئے ہے۔ یہ سب ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی افواج افغانستان سے انخلا میں مصروف ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق منگل کو طالبان نے افغانستان اور تاجکستان کے درمیان سرحدی مقام شیر خان بندر پر قبضہ کیا تھا۔ یہ اہم ترین سرحدی گزرگاہ صوبہ قندوز کے صوبائی دارالحکومت سے صرف 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ صوبائی دارالحکومت کے اردگرد کے علاقوں پر طالبان کا کنٹرول مضبوط ہونے کے ساتھ یہ خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ قندوز شہر پر بھی حملہ ہو سکتا ہے۔
قندوز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ترجمان مسعود وحدت نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ مقامی عملے نے آگاہ کیا ہے کہ طالبان نے پورٹ پر موجود تمام اناج اور دیگر اشیا ضبط کر لی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے کسٹم کا دفتر بھی تباہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزامات کی تردید کی ہے۔ انہوں نے لوٹ مار کے الزام کو بھی رد کیا ہے۔
تاجکستان کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے تصدیق کی ہے کہ طالبان کے حملے کے بعد افغان فورسز کے 100 سے زائد اہلکاروں نے سرحد عبور کی تھی۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے بیان میں مزید کہا گیا کہ تاجکستان کے سرحدی محافظوں نے انسانیت کے اصولوں اور اچھے پڑوسی ہونے کے ناطے افغانستان کی فوج کو تاجکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی۔
بیان میں کہا گیا کہ حملے میں ایک افغان فوجی اہلکار ہلاک بھی ہوا تھا جب کہ چار اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب افغان فورسز نے طالبان کے قبضے میں جانے والے علاقے واپس لینے کے لیے بڑا آپریشن شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
صوبہ قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن امر الدین ولی کا کہنا تھا کہ حکومت نے سرحد پر جوابی کارروائی کے حوالے سے تاحال کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔
بعض افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے قندوز میں داخل ہونے والے کئی طالبان کو حراست میں لیا ہے۔
دوسری جانب حکام یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ قندوز کی حفاظت کے لیے مقامی افراد بھی سیکیورٹی فورسز کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کے مسلح جتھوں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر لگائی جا رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں طالبان مزید تین اضلاع پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبہ بغلان کے دارالحکومت پُلِ خمری کے قریب شدید لڑائی جاری ہے۔
صوبہ میدان وردگ کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ ضلع جگھاٹو پر طالبان قابض ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے صوبہ پکتیا میں ڈنڈِ پتن اور بدخشاں میں ضلع خاش کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ کیا ہے۔
بلخ کے گورنر فرہاد عظیمی کا کہنا ہے کہ صوبے کے دو ہزار سے زائد شہریوں نے افغانستان کی سیکیورٹی فورسز میں شمولیت اختیار کی ہے اور ان کو طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں کو واگزار کرانے کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت جلد طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا جائے گا۔
منگل کو صوبہ بلخ کا دورہ کرنے والے نائب وزیرِ داخلہ نقیب اللہ فائق نے کہا ہے کہ وزارتِ داخلہ مقامی سطح پر طالبان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے لیے ہونے والی کوششوں کی حمایت اور مدد کرے گی۔
بلخ سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق حالیہ دنوں میں طالبان صوبے کے پانچ اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔ جب کہ بدھ کو سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق طالبان اور سیکیورٹی فورسز میں بلخ کے صوبائی دارالحکومت مزار شریف کے جنوبی اطراف میں لڑائی جاری ہے۔
طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز میں بغلان میں جاری جھڑپوں کے باعث ملک کے دارالحکومت کابل کو بجلی کی فراہمی منقطع ہو گئی ہے۔ کابل کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے ’برشنا کمپنی‘ کا کہنا ہے کہ بجلی کی فراہمی میں مزید تین دن لگ سکتے ہیں۔
رواں سال مئی کے آغاز سے ہی طالبان نے سرکاری فورسز کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنانے کی کارروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اس دوران عسکری گروہ نے ملک کے لگ بھگ 400 اضلاع میں سے 80 اضلاع پر قبضے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
البتہ طالبان کے اضلاع پر قبضے کے دعوے متنازع ہیں۔ کیوں کہ کئی اضلاع پر سرکاری فورسز بھی قابض ہونے کی دعویدار ہیں۔ جب کہ طالبان کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق بھی ممکن نہیں ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے رواں برس اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر 2021 تک امریکہ کی افواج افغانستان سے انخلا مکمل کر لیں گی۔
پیر کو پینٹاگون نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا منصوبے کے مطابق مقررہ تاریخ پر مکمل ہو جائے گا۔ البتہ طالبان کی حالیہ کارروائیوں سے اس کی رفتار میں کمی آ سکتی ہے۔
اس خبر میں بیشتر معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔