افغانستان میں طالبان نے طویل محاصرے کے بعد ایک مشرقی ضلعے پر قبضہ کرلیا ہے۔ جب کہ ایک اور ضلع میں ایک مہینے کی عارضی جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے۔
یہ دونوں واقعات ایک ایسے وقت ہوئے ہیں جب امریکہ اور نیٹو کے فوجیں ملک سے واپس جا رہی ہیں۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے ایاز گل نے اپنی ایک رپورٹ میں سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان لغمان صوبے کے جنگ سے متاثرہ ضلع دولت شاہ میں داخل ہو گئے ہیں، جب کہ وہاں موجود افغان سکیورٹی فورسز کسی مزاحمت کے بغیر اپنی دفاعی چوکیاں چھوڑ کر پسپا ہو گئیں۔
اطلاعات کے مطابق طالبان نے ایک اہم سرکاری عمارت اور اس کے ارد گرد واقع حفاظتی چوکیوں کو نذر آتش کر دیا۔ مذکورہ افغان ضلع گزشتہ چھ مہینوں سے طالبان کے محاصرے میں تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے علاقے سے افغان پولیس اور سپاہیوں کے فرار ہونے کے بعد دو ٹینک، ایک فوجی گاڑی اور بہت سارا گولا بارود اور ہتھیار اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس کی فورسز نے تکنیکی پسپائی کی ہے جب کہ علاقے میں اب بھی جھڑپیں جاری ہیں اور شورش پسند بڑی تعداد میں مارے گئے ہیں۔
وزارت دفاع کے عہدے داروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سیکیورٹی سے متعلق ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس سے غیرمحفوظ علاقوں، بالخصوص ان علاقوں کے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے میں مدد ملے گی، جہاں طالبان نے حالیہ دنوں میں افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے ہیں۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے جمعرات کو یہ دعویٰ کیا کہ اس کی فورسز نے کئی صوبوں میں جاری اپنی کارروائیوں کے دوران 178 طالبان عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 100 سے زیادہ کو زخمی کر دیا۔
افغانستان میں اکثر دونوں فریق ایک دوسرے کی ہلاکتیں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
ملک میں جاری جھڑپوں سے بڑے پیمانے پر یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ 11 ستمبر کے بعد جب ملک سے امریکہ اور نیٹو کی تمام فورسز واپس چلی جائیں گی، افغان فوج طالبان کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔
افغانستان کی فوج طالبان کے خلاف لڑائی میں بڑے پیمانے پر امریکی جنگی طیاروں کی مدد کے علاوہ فوجی تربیت اور دیکھ بھال پر انحصار کرتی ہے۔
افغانستان کے ضلع لغمان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی کارروائیوں کو مبصرین نے بھی تشویش ناک قرار دیا ہے۔ عید پر تین روزہ جنگ بندی کے اختتام پر طالبان اور حکومتی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ سامنے آیا ہے اور جمعرات کو طویل محاصرے کے بعد صوبہ لغمان کے مشرقی ضلع دولت شاہ پر قبضہ کر لیا ہے۔
ضلع دولت شاہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ اس کی سرحدیں صوبہ کاپیسہ، پنجشیر اور نورستان سے ملی ہوئی ہیں۔
افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے گفتگو میں کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فریقین استنبول کانفرنس سے قبل اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ مذاکرات کی میز پر اپنی پوزیشن کو مضبوط دیکھا سکیں۔ اور ایسے مواقع پر بلند و بانگ دعوؤں سے یہ بھی کوشش کی جاتی ہے کہ مخالف فریق کے حوصلوں کو پست کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے عید کے فوری بعد صوبہ ہلمند میں حملوں کا آغاز کیا تھا۔ جو کہ ان کا اہم بڑا گڑھ ہے۔ اور جنوب مغربی صوبوں میں لڑنے والے جنگجوؤں کا تعلق بھی ہلمند سے ہی ہے۔ وہاں انہوں نے پہلے صوبہ کے مرکز لشکر گاہ اور بعد میں انخلا کے بعد امریکی بیس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم انہیں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ مزید خون خرابے سے قبل وہ ممالک جو طالبان اور افغان حکومت سے رابطے میں ہیں، ان کو چاہیے کہ فریقین کو جلد از جلد بات چیت پر راضی کریں۔ تاکہ جنگ بندی عمل میں لائی جائے۔ اور افغانستان میں قیام امن کی راہ ہموار ہو۔
رپورٹس کے مطابق اس وقت افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 17 میں شدید لڑائی جاری ہے۔ امریکہ اور نیٹو فورسز کے انخلا کے اعلان کے بعد صوبہ بغلان میں دولت شاہ طالبان کے کنٹرول میں آنے والا پانچواں ضلع ہے۔
دولت شاہ، صوبائی دارالحکومت مہتر لام سے تقریبا 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے علاقے سے افغان پولیس اور سپاہیوں کے فرار ہونے کے بعد فوجی ساز و سامان کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
دوسری جانب حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر پسپائی اختیار کی ہے۔ اور بہت جلد ان علاقوں کے دوبارہ حصول کے لیے کارروائی کریں گے۔
افغان صحافی صمیم روحانی کا کہنا ہے کہ لغمان کے بیشتر حصوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکومت اور طالبان کے درمیان کافی عرصے سے لڑائی جاری ہے جس میں حکومتی اہلکاروں اور طالبان کے ساتھ ساتھ مقامی افراد بھی جانی و مالی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔
صمیم روحانی کا مزید کہنا تھا کہ دولت شاہ، الیشنگ اور الینگار کا شمار صوبہ لغمان کے سر سبز اضلاع میں ہوتا ہے۔ جہاں سیر و سیاحت کے لیے زیادہ تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ ان کے بقول طالبان کی یہ کوشش ہو گی کہ سیاحت کی مد میں زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔
افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں مقیم سینئر صحافی اور تجزیہ نگار صلاح الدین کوچی کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے سرکاری اہلکاروں کی جانب سے پسپائی کے بعد مقامی افراد نے لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہوئے تمام اشیا اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان عوام کو طالبان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ سال کیے گئے امن معاہدے سے کافی امیدیں تھیں۔ تاہم اب وہ فکر مندً ہیں کہ اگر امریکہ کے رہتے ہوئے ان کی سیکیورٹی کا یہ حال ہے اور افغان حکومت ان کی جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ تو ستمبر کے بعد کیا صورتِ حال ہو گی؟
افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے ساتھ ساتھ کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
قطر میں عید کے موقع پر افغان حکومتی نمائندوں اور طالبان کے درمیان بین الافغان امن مذاکرات کے سلسلے میں ایک ملاقات کو انہوں نے خوش آئند قرار دیا۔
طالبان اور مقامی سرداروں کے درمیان معاہدہ
رپورٹس کے مطابق افغانستان کے صوبہ لغمان کے ضلع الیشانگ میں طالبان اور مقامی سرداروں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس میں دونوں فریقوں نے ایک مہینے تک لڑائی روک دینے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ کسان اپنی گندم کی فصل کی کٹائی کر سکیں۔
معاہدے کی نقل میں، جسے طالبان نے سوشل میڈیا سائٹ پر شیئر کیا ہے، بتایا گیا ہے کہ اس معاہدے سے مقامی طالب علموں کو اپنے سالانہ امتحانات دینے میں بھی مدد ملے گی۔ معاہدے کے مطابق جنگ بندی 21 جون تک برقرار رہے گی۔
یہ معاہدہ الیشانگ میں کئی ہفتوں کی شدید لڑائی کے بعد طے پایا ہے۔
مقامی لوگوں نے شاذ و نادر ہونے والے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے جب کہ افغان حکومت یا طالبان کی جانب سے اس بارے میں باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔
امریکی جنرل افغان فورسز کے مستقبل کے لیے پر امید
دوسری جانب امریکی سینٹرل کمان کے کمانڈر، جنرل فرینک مک کیزی نے بدھ کے روز کہا کہ ان کا خیال ہے کہ افغانستان کے پاس اپنی حفاظت کرنے اور کامیاب ہونے کے لیے موقع موجود ہے۔
مڈل ایسٹ کے دورے کے دوران اپنے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ افغان فوج اٹھ کھڑی ہو اور یہ ثابت کرے کہ وہ اکیلے لڑ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ''میرے خیال میں ان کے لیے مشکلات سامنے آ رہی ہیں۔ ان کے پاس جو کچھ ہے اسے محفوظ رکھنے کا یقینی طور پر راستہ موجود ہے، جب کہ خطرات بہت زیادہ ہیں''۔
اعلیٰ امریکی کمانڈر نے کہا ہے کہ وہ جون کے شروع میں وزیردفاع لائیڈ آسٹن کو اس بارے میں سفارشات پیش کریں گے کہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر کے دہشت گرد گروپس سے کیسے لڑا جائے اور ان کی نگرانی کی جائے جب تمام امریکی فورسز وہاں سے چلی جائیں گی۔
امریکی سینٹرل کمان کے کمانڈر، جنرل فرینک مک کنزی نے کہا کہ افغانستان کے ہمسائیوں سے ان کی فضاؤں میں پرواز کرنے اور فوجی اڈوں کے حقوق حاصل کرنے سے متعلق بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس میں وقت لگے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس انداز سے امریکہ دہشت گردی کے خطرے پر نظر رکھے ہوئے ہے، معاہدوں تک پہنچنے یا زمین پر سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہونے کے نتیجے میں افغان فوج کی قوت میں بتدریج اضافہ ہو جائے گا۔
مک کینزی نے اس بارے میں مزید کچھ نہیں بتایا کہ وہ امریکی وزیر دفاع کو کیا سفارشات پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، جو زیادہ سے زیادہ 11 ستمبر تک مکمل ہو جائے گا، دہشت گرد گروپس پر نظر رکھنے کے لیے افغانستان پر نگرانی کرنے والے طیاروں کی باقاعدہ پروازوں کے اخراجات کا تخمینہ بھی پیش کریں گے۔
مک کینزی نے یہ واضح کیا کہ ہمسایہ ملکوں میں اڈوں کی غیر موجودگی کی صورت میں افغانستان کی نگرانی کرنے کے لیے زیادہ طیاروں کی ضرورت ہو گی کیونکہ انہیں مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی تنصیبات سے آنے کے لیے چار سے چھ گھنٹوں تک پرواز کرنا ہو گی۔
دوسری جانب افغان مفاہمت کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے واشنگٹن میں ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے اپنی سماعت میں ان خدشات کو مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر مجھے یہ یقین ہے کہ ایسے بیانات غلط ہیں کہ افغان فورسز منتشر ہو جائیں گی اور تھوڑے ہی عرصے میں طالبان قبضہ کر لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو ایک طویل جنگ اور گفت و شنید کے ذریعے طے پانے والے معاہدے کا سامنا کر کے حقیقی انتخاب کرنا ہے اور مجھے توقع ہے کہ طالبان اور دوسرے رہنما درست انتخاب کریں گے۔
خیال رہے کہ باقی ماندہ رہ جانے والے تقریباً 2500 امریکی اور لگ بھگ 7000 نیٹو فوجیوں کی افغانستان سے واپسی یکم مئی سے جاری ہے۔ اس اثنا میں افغانستان میں لڑائی میں تیزی دیکھی گئی ہے۔
امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے پچھلے مہینے افغانستان میں تقریباً 20 سال سے جاری فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔