رسائی کے لنکس

افغان مشیر برائے قومی سلامتی کے بیان پر تنازع: ’کوئی پاکستانی آپ سے ہاتھ بھی نہیں ملائے گا‘


شاہ محمود قریشی (فائل فوٹو)
شاہ محمود قریشی (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان مشیر برائے قومی سلامتی کے حالیہ بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے امن عمل کی راہ میں روکاوٹ ڈالنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

ہفتے کو پاکستان کے شہر ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اب کوئی بھی پاکستانی نہ تو افغان مشیر برائے قومی سلامتی سے بات کرے گا اور نہ ہی ہاتھ ملائے گا۔

افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب تواتر سے پاکستان اور بالخصوص اس کی فوج پر افغانستان میں طالبان کو مبینہ معاونت فراہم کرنے کے الزامات عائد کرتے آئے ہیں جب کہ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

لیکن گزشتہ ماہ حمد اللہ محب نے پاکستان کی سرحد کے قریب افغان صوبے ننگر ہار میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رپورٹس کے مطابق پاکستان کا موازنہ ’قحبہ خانے‘ سے کیا تھا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے پہلی بار باقاعدہ بیان سامنے آیا ہے جس کے مطابق افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب کے اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے ان کے ساتھ پیدا ہونے والی تلخی کی تصدیق کی گئی ہے۔

ایک اعلیٰ پاکستانی عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ اسلام آباد نے کابل کو ’غیر رسمی ذرائع‘ سے آگاہ کر دیا ہے کہ آئندہ حمداللہ محب کے ساتھ سفارتی سطح پر روابط نہیں رکھے جائیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے حمداللہ محب کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’جب سے آپ نے پاکستان کا موازنہ قحبہ خانے سے کیا ہے میرا خون کھول رہا ہے۔ آپ کو شرم آنی چاہیے اور آپ کو اپنا طرز عمل ٹھیک کرنا ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ "بطور وزیرِ خارجہ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ پاکستان کے لیے نازیبا زبان استعمال کرنا نہیں چھوڑتے کوئی پاکستانی آپ سے بات نہیں کرے گا یا ہاتھ بھی نہیں ملائے گا۔"

شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے اور ملک میں استحکام لانے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی ’معترف‘ ہے۔

انہوں نے حمد اللہ محب پر الزام عائد کیا کہ ’’دراصل وہ خرابی پیدا کر رہے ہیں اور افغانستان میں امن کے راستے پر رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔‘‘

شاہ محمود قریشی کے اس تبصرے پر افغان حکومت کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

گزشتہ ہفتے حمد اللہ محب نے کابل میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ان کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی سے متعلق انتباہ کے بارے میں باقاعدہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا اور کسی نامعلوم پاکستانی عہدے دار سے منسوب بیان پر مبنی میڈیا رپورٹ پر تبصرہ قبل از وقت ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی متعلقہ سفارتی طریقوں سے باقاعدہ طور پر آگاہ کیا گیا تو افغان حکومت اس پر اپنا ردِعمل ظاہر کرے گی۔

سفارتی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے حالیہ دورۂ افغانستان میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران بھی حمداللہ محب کے ’نامناسب بیانات‘ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس ملاقات میں امن مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے والے برطانوی ملٹری کے رہنما جنرل نک کارٹر بھی موجود تھے۔

اس معاملے سے آگاہ ایک سینئر پاکستانی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے حمداللہ محب کے بیانات پر افغانستان سے شدید احتجاج کیا ہے۔

دو سال قبل دورۂ امریکہ میں متنازع بیانات کی وجہ سے امریکی انتظامیہ نے بھی افغان قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقاتیں روک دی تھیں۔ تاہم اس کے بعد یہ رابطے بحال کر دیے گئے تھے۔

محب نے اس وقت افغانستان میں مفاہمت کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد پر الزام عائد کیا تھا کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات میں وہ کابل حکومت کو اہمیت نہیں دے رہے۔

زلمے خلیل زاد جس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھا رہے تھے اس کے نتیجے میں فروری 2020 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی۔ جس کے بعد رواں برس یکم مئی سے فوج کا انخلا شروع ہو چکا ہے اور رواں برس 11 ستمبر تک یہ عمل مکمل ہونے کا امکان ہے۔

حمد اللہ محب (فائل فوٹو)
حمد اللہ محب (فائل فوٹو)

حمد اللہ محب نے مزید کیا کہا تھا؟

ننگر ہار میں اپنے خطاب میں مشیر حمداللہ محب نے طالبان کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قربان کر سکتی ہے۔

حمداللہ محب کا طالبان کو پیغام دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو نہ تو ان کی ضرورت ہے اور نہ پاکستان، طالبان کو افغانستان میں حکومت دلوا سکتا ہے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ پاکستان نے طالبان کو جو کچھ بتایا ہے، وہ ایک جھوٹ ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو جو چیز طالبان سے درکار ہے وہ اپنے مقاصد کے لیے انہیں قربان کر رہے ہیں۔

پاکستان کی افغان امن عمل کی کوششیں

پاکستان اور افغانستان نے تاریخی طور پر اور خاص طور پر 2001 میں امریکہ پر دہشت گردی کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے بعد کئی مواقع پر ٓاختلافات کا اظہار کیا ہے۔

اگرچہ کچھ افغان رہنما پاکستان پر طالبان کی پر تشدد کارروائیوں کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں، امریکہ نے پاکستان کی افغان امن عمل کے سلسلے میں جاری کوششوں کو مسلسل سراہاہے۔

امریکی حکام نے پاکستان کی افغان طالبان کو کابل کی حکومت کے ساتھ امن معاہدے کی جانب مذاکرات کے لیے میز پر لانے کی تعریف کی ہے۔

افغان مشیر کے بیانات سے پیدا ہونے والا تنازع افغانستان اور پاکستان کے درمیان تاریخی طور پر موجود عدم اعتماد اور سیاسی کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان 2,600 کلومیٹر طویل بارڈر ہے۔

XS
SM
MD
LG