عائشہ تنظیم
ایک عام تاثر یہ ہے کہ 2016ء کے دوران افغانستان میں طالبان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ پاکستان میں روپوش اپنے قائدین کو افغانستان منتقل کرنے سے متعلق طالبان کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے پراعتماد ہیں۔ گو کہ افغان حکومت اس تاثر کی تردید کرتی ہے کہ طالبان مضبوط ہورہے ہیں، لیکن لگتا یہ ہے کہ نیا سال افغان حکومت کے لیے مزید مشکل ثابت ہو گا۔ سال 2016ء کے دوران افغانستان میں طالبان کی شورش مزید مضبوط ہوئی ہے۔ سال کے دوران طالبان نے ملک کے کئی علاقوں میں پیش قدمی کی، کئی اضلاع پر قبضہ کیا اور کئی صوبوں کے دارالحکومت ان کے کنڑول میں جاتے جاتے رہ گئے۔
سال کا آغاز تو اس امید سے ہوا تھا کہ افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکی گروپ بالآخر طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
لیکن افغانستان اور پاکستان کے درمیان اختلافات کے باعث یہ امید جلد ہی دم توڑ گئی۔ رواں سال مئی میں طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ ان کی جگہ طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی شناخت ایک جنگی ماہر سے زیادہ ایک عالمِ دین اور دانشور کی تھی۔ اس تاثر کی نفی اور میدانِ جنگ میں اپنی مہارت کو ثابت کرنے کے لیے وہ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں تیزی لے آئے۔
دوسری جانب افغان سیکورٹی فورسز اس سال بھی داخلی مسائل کا شکار رہیں۔ سیکورٹی فورسز کو بھگوڑے اہلکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے علاوہ ایک اور اہم مسئلہ داخلی حملوں کا درپیش رہا۔ اس سال سیکورٹی فورسز کو 100 سے زائد ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں حملہ آور خود سیکورٹی اہلکار تھے۔ ان حملوں میں ڈھائی سو اہل کار مارے گئے۔
مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد نیٹو کے افغان مشن کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی ایک بڑی وجہ فوج میں زیریں اور درمیانی سطح پر قیادت کا فقدان ہے۔
نیٹو کے ترجمان چارلس کلیولینڈکہتے ہیں کہ افغان فوج کے چھوٹے یونٹوں کے سربراہ اپنے اہلکاروں کو گولہ بارود، خوراک، اور دیگر ضروری سامان فراہم نہیں کر پا رہے۔ ایسے میں ان کے ماتحت اہلکاروں میں یہ سوچ پروان چڑھتی ہے کہ وہ کیوں ایسے لوگوں کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالیں جو ان کی ضرورتیں بھی پوری نہیں کرسکتے۔
افغانستان میں جاری لڑائی اب تک افغان سیکورٹی فورسز کے ساڑھے پانچ ہزار اہلکاروں کی جان لے چکی ہے۔
لیکن افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان نکلسن حالات سے اتنے مایوس نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس سال طالبان نے آپریشن شفق کے نام سے کارروائیاں کیں۔ اس آپریشن کے دوران طالبان نے مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے لیےآٹھ بڑے حملے کیے جو تمام کے تمام ناکام رہے۔
افغان حکومت نے رواں سال ایک اور جنگجو کمانڈر گلبدین حکمت یار کی جماعت حزبِ اسلامی کے ساتھ امن معاہدے کیا۔ افغان حکام کو امید ہے کہ یہ معاہدہ طالبان کے مختلف دھڑوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔
لیکن زمینی صورت حال یہ ہے کہ سالِ رواں کے اختتام پر افغانستان کے نصف سے کچھ ہی زیادہ اضلاع افغان حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ باقیوں میں سے بیشتر یا تو طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں یا ان پر قبضے کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
افغان حکومت کا پرانا الزام ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو پناہ گاہیں اور مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ لیکن اب امریکہ اور افغان دونوں حکومتوں کو تشویش ہے کہ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک ، خاص طور پر ایران اور روس بھی طالبان کی مدد کرنے لگے ہیں تاکہ وہ افغانستان میں داعش کو قدم جمانے سے روک سکیں۔ لگتا ہے ایسا ہے کہ 2017ء میں افغان حکومت کو طالبان کے مقابلے پر اسلحے کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کی بھی ضرورت پڑے گی۔