رسائی کے لنکس

طالبان اور افغان فورسز کا استنبول کانفرنس سے قبل ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان نے اتوار کو جھڑپوں کے دوران ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔

افغانستان کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں نیشنل سیکیورٹی فورسز نے مختلف صوبوں میں کارروائیوں کے دوران لگ بھگ 160 باغیوں کو ہلاک کیا ہے جب کہ درجنوں زخمی بھی ہوئے ہیں۔

افغان آرمی کمانڈرز کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ صوبۂ قندھار کے جنوبی ضلع ارغنداب کو طالبان جنگجوؤں سے خالی کرا لیا گیا ہے۔

دوسری جانب طالبان نے اتوار کی دوپہر دارالحکومت کابل سے 30 کلو میٹر دور ضلع پغمان میں افغان فورسز کے قافلے پر کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

افغان حکام کے مطابق دھماکے میں تین سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والے بیشتر اہلکاروں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔

افغان فورسز اور طالبان کے درمیان حالیہ جھڑپیں ایسے موقع پر ہو رہی ہیں جب امریکہ کے تجویز کردہ امن منصوبے کے تحت فریقین کی ترکی میں رواں ماہ کے اختتام پر ملاقات متوقع ہے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان فورسز کے قافلے کو حکمتِ عملی کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے جس میں ہلاک و زخمیوں کی تعداد 45 ہے۔

طالبان نے ضلع ارغنداب کا کنٹرول ہاتھ سے جانے سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان فورسز کو ممکنہ ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بیان کے مطابق طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو حکم دیا ہے کہ اگر کابل حکومت کی جانب سے فوری طور پر حملے نہ رکے تو وہ اپنے اور مقامی افراد کے دفاع کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں۔

طالبان کی دھمکی کے بعد افغانستان میں آئندہ دنوں میں مزید ہلاکت خیز حملوں کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

بین الافغان مذاکرات کا ایک جائزہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:33 0:00

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی تشدد کی حالیہ لہر ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والی افغان امن کانفرنس پر اثر انداز نہیں ہو گی۔

افغان صدر اشرف غنی کی حکومت تصدیق کر چکی ہے کہ کابل انتظامیہ امن کانفرنس میں شرکت کرے گی۔

افغان حکام نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ دس روزہ کانفرنس کا آغاز 16 اپریل سے ہو گا۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے امن معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج کو یکم مئی تک انخلا یقینی بنانا ہے۔ ایسے میں امریکہ، افغان حکومت اور طالبان کو مذکورہ ڈیڈ لائن سے قبل حتمی معاہدے پر راضی ہونے کے لیے زور دے رہا ہے۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نعیم نے گزشتہ ہفتے افغان میڈیا کو بتایا تھا کہ ترک حکام نے استنبول کانفرنس کے مقصد اور اس کی تفصیلات سے متعلق ان سے معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔

ان کے بقول طالبان کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنی ہے یا نہیں۔

صدر غنی کا امن منصوبہ

گزشتہ ہفتے صدر غنی نے تاجکستان میں افغانستان پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں اپنا امن منصوبہ پیش کیا تھا جب کہ افغان حکام کا کہنا تھا کہ وہ اس منصوبے کو استنبول کانفرنس میں پیش کریں گے۔

دوسری طرف افغانستان کے حزبِ اختلاف کے سیاست دان، اشرف غنی کے امن منصوبے کے حامی نہیں اور انہوں نے استنبول کانفرنس سے قبل ایک متحد منصوبہ پیش کرنے پر زور دیا ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ نے افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے تجویز دی تھی کہ غنی حکومت کو ایک عبوری سیاسی حکومت میں تبدیل کر دیا جائے جس میں طالبان کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ تاہم کابل حکومت نے امریکہ کی اس تجویز کی شدید مخالفت کی تھی۔

XS
SM
MD
LG