محنت کے بین الاقوامی ادارے ،انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے منگل کو کہا کہ جنگ زدہ ملک پر طالبان کے قبضہ کرنے کے بعد سے افغانستان میں خواتین کی ملازمتوں کی سطح بہت زیادہ گر گئی ہے۔ ایک نئی رپورٹ میں آئی ایل او کا کہنا ہے کہ خواتین کی صلاحیتوں میں یہ کمی ان کی سرگرمیوں پر طالبان کی پابندیوں اور ان کو کام نہ کرنے دینے کے باعث ہوئی ہے ۔
آئی ایل او کے اندازے کے مطابق ، خواتین کو قومی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے سے روک دینے کے حالیہ حکم نامے نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
خواتین کی ملازمتیں 2022 کی چوتھی سہ ماہی میں ایک تخمینے کے مطابق 2021 کی ،بحران سے پہلے کی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں 25 فیصد کم رہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا اسی عرصے میں مردوں کی ملازمت کی سطح میں سات فیصد کمی آئی ۔
طالبان نے اگست 2021 میں جب امریکہ اور نیٹو افواج دو دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان سے نکل گئیں تو اقتدار دوبارہ سنبھال لیا تھا۔اس کے بعد سے طالبان لیڈروں نے ان کی تشریح سے مطابقت رکھنے والا اسلامی قانون یا سخت شریعت نافذ کر دی ، جس کے تحت ، زیادہ تر افغان خواتین کو کام پر جانے سے روک دیا گیا اور غریب ملک میں چھٹی جماعت سے آگے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ۔
افغانستان کے لیے آئی ایل او کے سینئر کوآرڈینیٹر رامین بہزاد نے کہا کہ لڑکیوں اور خواتین پر پابندیاں ان کی تعلیم اور لیبر مارکیٹ کے امکانات پر شدید اثرات مرتب کرتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گھروں میں قائم نجی روزگار، لیبر مارکیٹ میں خواتین کی شرکت کی ایک اہم شکل بن گیاہے، جس سے اعداد و شمار کو مزید گرنے سے روکا جا رہا ہے۔
بہزاد کا کہنا ہے کہ تمام نوجوان خواتین اور مردوں کو معیاری تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ باعزت اور بار آور روزگار کے مواقع تک یکساں رسائی فراہم کرنا افغان معیشت اور معاشرے کے مستقبل کے لیے ایک اہم چیلنج اور ترجیح ہے۔
آئی ایل او کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 15 سے 24 سال کی عمر کے افغانوں کے لیے نوجوانوں کے روزگار میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
افغانستان بدستور انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ ، برسوں کی جنگ، طویل خشک سالی، سخت معاشی حالات اور ایک چیلنجنگ لیبر مارکیٹ ہے۔
طالبان کے قبضے کے بعد سے ملکی بحران مزید شدت اختیار کرگیا ہے، کیونکہ غیر ملکی حکومتوں نے زیادہ تر امداد پر انحصار کرنے والے ملک کے لیے ترقیاتی فنڈز روک دیے ہیں۔ افغان مرکزی بینک کے 9 بلین ڈالر سے زیادہ غیر ملکی اثاثوں کو منجمد کر دیا اور افغان بینکنگ سیکٹر کو الگ تھلگ کر دیا گیا۔
عالمی برادری نے طالبان کو افغانستان کا جائز حکمران تسلیم کرنے سے گریزکیا ہے اور وہ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر آمادگی سے پہلے ،سخت گیر طالبان قیادت سے انسانی حقوق کو بحال کرنے اور دہشت گرد گروپوں سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے ۔
اسی اثناء میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پیر کو خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کے اجلاس میں کہا کہ افغان عبوری حکومت نے خواتین اور لڑکیوں کا عوامی زندگی سے مکمل طور پر صفایا کر دیا ہے۔ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کاعوامی زندگی میں کوئی کردار نہیں رہا ۔
گوتریس نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ ہر صورت میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کا مطالبہ جاری رکھے گا۔ اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی خواتین کی سربراہ کے حالیہ دورہ افغانستان کا حوالہ دیتے ہوئے، گوتریس نے کہا کہ افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق جائز ہیں، اور جب تک انہیں سماجی انصاف نہیں مل جاتا ہم ان کے حقوق کے لیے لڑنا بند نہیں کریں گے۔
یورپی یونین کے نمائندے نے اس موقع پر کہا کہ یورپی یونین کو افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش ہے۔جب کہ یوناما کی سربراہ روزا اوتن بائیفا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو افغانستان کی صورت حال پر بریفنگ دیں گی۔
ادھر افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کے ادارے مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔
خواتین کے ایک گروپ نے منگل کو کابل شہر کے علاقے شہر نو میں احتجاج کیا۔ وہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو دوبارہ کھولنے اور ان کے کام کرنے کے حق کے لیے مطالبہ کر رہی تھیں۔ احتجاجی خواتین زندگی، انصاف اور آزادی کے نعرے لگا رہی تھیں ۔
افغان خواتین کارکنوں کا کافی عرصے کے بعد سڑک پر یہ پہلا احتجاج تھا جو آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن سے ایک دن پہلے ہو ا ہے ۔
افغان خواتین کارکنوں کا کہنا تھا کہ اگر عالمی برادری افغان خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہے تو اسے خالی بیانات شائع کرنے کے بجائے عمل کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے 18 ماہ سے زائد عرصے میں وہ اپنے تمام حقوق کھو چکی ہیں۔
افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی رینا امیری نے عالمی رہنماؤں سے کہا کہ وہ افغان خواتین اور لڑکیوں کی صورت حال پر توجہ دیں۔
(اس خبر کے لیے تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)