پاکستان اور امریکہ نے دہشت گردی کی روک تھام، انتہا پسندی اور تشدد کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو روزہ سیکیورٹی ڈائیلاگ کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں دونوں ملکوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ علاقائی اور عالمی خطرات سے نمٹنے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے بھی مل کر اقدامات کیے جائیں گے۔
مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت محکمہ خارجہ کے انسدادِ دہشت گردی کے قائم مقام کوآرڈینیٹر کرسٹوفر لینڈبرگ نے کی۔ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستانی وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری سید حیدر شاہ نے کی۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت ہوئے ہیں جب اگست 2021 میں اٖفغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد کالعدم شدت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان کی عسکری کارروائیوں میں خطرناک اضافہ ہو ا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی کے مذاکرات کو نہایت اہم قرار دےرہے ہیں۔
امریکی سفارت خانے کے بیان کے مطابق مذاکرات کے دوران اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ کس طرح دونوں ملکوں دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں تعاون مضبوط کر سکتے ہیں۔
'دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے'
دفاعی امور کے تجزیہ کار سعد محمد کہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے تدارک کے لیے دونوں ملکوں کو ایک، دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سعد محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں خطرات صرف علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی بھی ہیں۔
یادر ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے فروری کے اوائل میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ امریکہ کے لیے پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی تعلقات 'اہم' ہیں اور اسلام آباد کو درپیش کئی خطرات ہمارے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
لیکن اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات میں اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا کہ سابق صدر ڈونلڈٹرمپ کے دور میں پاکستان کے معطل ہونے والی سیکیورٹی امداد کب بحال ہوسکتی ہے۔
خیال رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں پاکستان کی لگ بھگ 30 کروڑ ڈالر کی سیکیورٹی امداد معطل کر دی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ پاکستان نے شدت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں نہیں کیں۔
سعد محمد کہتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کی افغانستان میں مبینہ موجودگی پاکستان کے لیے اولین خطرہ ہے لیکن شدت پسند اور دہشت گرد گروپ داعش اور القاعدہ اب بھی امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ لہذٰا انسدادِ دہشت گردی میں دونوں ملکوں کا تعاون وقت کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہمابقائی کہتی ہیں کہ سیکیورٹی ڈائیلاگ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اقتصادی بحران اور دہشت گردی کے چیلنج کی وجہ سے پاکستان کا جھکاؤ ایک بار پھر امریکہ کی طرف ہو رہا ہے۔
پاکستانی حکام یہ کہتے رہے ہیں کہ اسلام آباد عالمی سطح پر کسی بھی کیمپ کا حصہ نہیں ہے بلکہ وہ امریکہ اور چین سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ اس وقت اس بات کاامکان نظر نہیں آتا کہ امریکہ پاکستان کے لیے معطل ہونےوالے سیکیورٹی تعاون کو بحا ل کر سکتاہے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پالیسی ساز حلقوں میں اس بات پراتفاق ہے کہ معاشی طور پر مستحکم پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کیا امریکہ پاکستان کی مدد کرسکتا ہے یا نہیں۔