مغربی افغانستان میں مسلح افراد نے فنلینڈ کی دو خواتین کو گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا، جو ہرات کے شہر میں واقع ایک خیراتی طبی تنظیم کے لیے کام کیا کرتی تھیں۔
اِن خواتین کو، جو ’انٹرنیشنل اسسٹنس مشن‘ نامی ایک مسیحی گروپ کی ارکان تھیں، موٹر سائیکل سوار دو افراد نے گولیوں کا نشانہ بنایا، ایسے میں جب وہ ایک ٹیکسی میں سوار تھیں۔
مسلح افراد جائے واردات سے غائب ہوگئے، جن کی شناخت نہیں ہوپائی۔
ہرات کے صوبائی محکمہٴصحت نے کہا ہے کہ اُن کی موت اُس وقت واقع ہوئی جب اُنھیں ایک اسپتال منتقل کیا جارہا تھا۔
محمد رفیق شیرازی کا تعلق ہرات کے صوبائی محکمہٴصحت سے ہیں۔ اُن کے بقول، ’دو نامعلوم مسلح افراد نے ہرات کے علاقائی دفتر سے وابستہ ’انٹرنیشنل اسسٹنس مشن‘ کی دو اہل کاروں کو اُس وقت نشانہ بنایا جب وہ ایک مارکیٹ میں خریداری کر رہی تھیں۔ بدقسمتی سے، اسپتال منتقل کیے جانے کے دوران وہ چل بسیں‘۔
’انٹرنیشنل اسسٹنس مشن‘ کا امدادی گروپ سنہ 1960سے افغانستان میں کام کرتا آیا ہے، جسے ماضی میں بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
شمالی افغانستان میں آٹھ غیرملکی طبی کارکنوں کی ہلاکت کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ’مشنریز‘ کو ہدف بناتے رہیں گے۔
جمعرات کے روز ہیلسنکی میں، فِنلینڈ کے صدر سولے نِنستو نے اِن خواتین کی ہلاکت کے معاملے میں انصاف اور احتساب کے تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم الیگزینڈر اِسٹب نے کہا ہے کہ افغانستان کی سلامتی کی صورتِ حال کا ازسرِ نو جائزہ لیا جانا چاہیئے۔