اگرچہ واپس بلائے جانے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن صدر پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ تعداد اچھی خاصی ہو گی۔ وائٹ ہاؤس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔
تعداد چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، صدر سمیت تمام امریکی عہدے داروں نے یہی کہا ہے کہ فوجوں کی واپسی کی رفتار اور ان کی تعداد کا انحصار حالات پر ہو گا، یعنی یہ دیکھا جائے گا کہ باغی کتنے طاقتور اور سرگرم ہیں، اور افغان حکومت از خود کس حد تک ان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ لیکن حالات کے بارے میں آراء بہت مختلف ہیں۔
دو ہفتے قبل، ایک اخباری انٹرویو میں ، افغانستان میں نیٹو فورسز کے کمانڈر ، جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے جو جلد ہی سی آئی اے کے ڈائریکٹر بننے والے ہیں، کہا کہ افغانستان میں اب تک جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ کمزور ہے اور حالات پرانی ڈگر پر واپس جا سکتے ہیں۔ وزیرِ دفاع گیٹس نے بھی اہم پیش رفت کا حوالہ دیا ہے لیکن انھوں نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ عجلت میں واپسی سے ، ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ سب ضائع ہو سکتا ہے ۔ انھوں نے بہت تھوڑی تعداد میں امدادی فوجیوں کی واپسی کے لیے کہا ہے، لڑاکا فوجیوں کی واپسی کے لیے نہیں۔
سابق سفارتکار میتھیو ہوہ نے افغانستان میں خدمات انجام دی ہیں لیکن انھوں نے جنگ سے مخالفت کی بنا پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ کہتےہیں کہ افغانستان میں حالات بہتر ہونے کے بجائے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔’’ہم نے جنگ تیز کر دی۔ ہم نے فوجیوں کی تعداد تین گنا کر دی۔ جو پیسہ خرچ کر رہےہیں وہ تین گنا کر دیا۔ ہم نے دو انتخابات میں مدد دی جن میں دھاندلی ہوئی۔ بغاوت کا سائز اور بڑا ہو گیا ہے اور یہ پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ اب چند سال پہلے تک یہ جنوب اور مشرق تک محدود تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘‘
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے اینڈریو وِلڈر کہتے ہیں کہ صدر اوباما کو فوجوں کی واپسی کے اعلان کے موقع پر یہ واضح کرنا چاہیئے کہ افغانستان میں امریکہ کے مقاصد کیا ہیں۔ وہ کہتےہیں ابتدائی مقاصد کہ القاعدہ کو شکست دی جائے اور طالبان کو اقتدار پر قبضہ نہ کرنے دیا جائے، گذشتہ 10 برسوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ بعد میں مملکت کی تعمیر اور افغانستان کی اقتصادی ترقی کے مقاصد ان میں شامل ہوگئے۔ یہ بات اشد ضروری ہے کہ ہم پھر واضح کریں کہ ہم افغانستان میں کیوں ہیں، اور پھر اس مقصد کے لیئے وسائل مہیا کریں۔
امریکی منصوبے کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ افغان فوج اور پولیس کی تعمیر کی جائے تا کہ وہ سکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ امریکہ میں افغانستان کے سابق سفیر سید جواد کہتے ہیں کہ فوج کی حالت بہت بہتر ہے لیکن پولیس کی حالت اب بھی پریشان کن ہے۔’’کچھ شعبوں میں بہت ترقی ہوئی ہے، اور خاص طور سے فوج کی حالت بہت اچھی ہے۔ لیکن پولیس کو تعداد کے لحاظ سے، اور پیشہ وارانہ مہارت حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔‘‘
جواد کہتے ہیں کہ مسئلہ صرف پولیس کا نہیں بلکہ حکومت کا بھی ہے جس میں بہت زیادہ کرپشن ہے ۔ صدر حامد کرزئی کی حکومت کی نظر میں یہ مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا امریکہ اور اس کے نیٹو کے اتحادیوں کے لیے ہے ۔ یہ خیال بھی جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے سیاسی تصفیہ ضروری ہو گا اور اس سلسلے میں بالکل ابتدائی بات چیت شروع ہوئی ہے۔
جواد کہتے ہیں کہ اقتدار میں شرکت کا سمجھوتہ ناگزیر ہے لیکن طالبان ابھی کسی قسم کا سودا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اگرچہ طالبان پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور سے جنوب میں، لیکن انہیں ملک کے دوسرے حصوں میں نقل و حرکت کی زیادہ آزادی مل گئی ہے۔ ان کے بارے میں تاثر یہ نہیں ہےکہ وہ مکمل طور سے جنگ ہار چکےہیں اور اس لیئے وہ مذاکرات کے لیے مجبور نہیں ہیں۔ طالبان کی نظر میں فتح کا مطلب وہ نہیں ہے جو امریکہ کا یا افغانستان کے لوگوں کا ہے ۔
اینڈریو وِلڈر کہتے ہیں کہ امن صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب سمجھوتے میں نہ صرف افغانستان کی حکومت اور طالبان شامل ہوں بلکہ اسے بین الاقوامی برادری کی بھی حمایت حاصل ہونی چاہیئے۔
اتوار کے روز وزیرِ دفاع گیٹس نے کہا کہ صدر کا فیصلہ چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، انہیں توقع ہے کہ افغانستان میں فوجوں کی اچھی خاصی بڑی تعداد موجود رہے گی ۔