رسائی کے لنکس

طالبان انسداد منشیات میں ناکام: وجوہات کیا ہیں؟


اس سال یکم اپریل کو لی گئی ایک تصویر میں افغان کسان ضلع، ہلمند صوبہ، افغانستان میں پوست کاٹ رہے ہیں۔
اس سال یکم اپریل کو لی گئی ایک تصویر میں افغان کسان ضلع، ہلمند صوبہ، افغانستان میں پوست کاٹ رہے ہیں۔

طالبان جب پہلی بار افغانستان پر حکومت کر رہے تھے تو سن 2000 میں انہوں نے افیون کی پیداوار کو تقریباً ختم کردیا تھا لیکن اس کارکردگی کے برعکس طالبان کی موجودہ عبوری حکومت منشیات کے انسداد میں اپنے وعدے سے پیچھے رہتے ہوئے ناکام دکھائی دے رہی ہے۔

وائس آف امریکہ کے لیے اکمل داوی کی رپورٹ کے مطابق رواں سال اپریل میں طالبان کے رہنماہیبت اللہ اخندزادہ نے پوست کی کاشت اور دوسری تمام منشیات کی پیداوار، فروخت اور استعمال کو غیر قانونی قرار دینے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ یہ حکم ایسے وقت میں جاری ہوا جب افغان کسان ایک سال قبل بوئی گئی پوست کی کٹائی کرتے ہیں۔

اس سال پوست کی کاشت کے موسم سے قبل طالبان نے انسداد منشیات کے حوالے سے کارکردگی بیان کرتے ہوئے معمولی سی کامیابیوں کا ذکر کیا ہے۔

طالبان وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال کے دوران پوست کے ایک سو ایکڑ سے کم کھیتوں کو تباہ کیا گیا۔ دو ہزار کے قریب منشیات فروشوں اور اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا اور چار ہزار دو سو 70 کلو گرام افیون ضبط کی گئی۔

طالبان حکومت کی انسداد منشیات کی یہ کارکردگی پچھلی افغان حکومت سے بھی کم تر ہے جس کے دو عشروں کے دوران منشیات کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا۔

اقوام متحدہ اور اس وقت کے افغان حکام کے مطابق سن 2020 میں افغان حکومت نے منشیات کے کارو بار میں ملوث 3,100 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ تقریباً 80 ہزار کلو گرام افیون ضبط کی گئی اور تقریباً 1,000 ایکڑ کی اراضی پر پوست کے کھیتوں کا خاتمہ کیا گیا۔

افغانستان سے منشیات کی اسمگلنگ
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:56 0:00

طالبان کی کارکردگی کے حوالے سے افغانستان میں انسداد منشیات کے سابق نائب وزیر اور اب ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے محقق جاوید قائم کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال موجودہ حکمرانوں کی نیتوں پر شدید شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے کہ کیا وہ واقعی پوست کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔

موجودہ حالات کا ماضی کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب افغانستان میں جمہوری حکومت تھی اس وقت سلامتی ایک بڑا چیلنج تھا۔ پولیس ان علاقوں میں جانے سے قاصر تھی جہاں پوست کی کاشت ہوتی تھی۔ اب جبکہ طالبان یہ دعویٰ کرتے ہیں کے تمام علاقے ان کے کنٹرول میں ہیں تو انہیں یہ کام آسانی سے کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

اگرچہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم نے سن 2022 کے لیے افغان افیون کی پیداوار کا اپنا سالانہ جائزہ جاری نہیں کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ماضی سے چلتے آرہے رجحان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ہے۔

جون میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ کولمبیا میں امن عمل اور افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی نے بنیادی طور پر دونوں ملکوں میں بغاوتوں کا خاتمہ توکر دیا ہے لیکن دونوں کا منشیات کی غیر قانونی کاشت اور پیداوار میں نمایاں کردار اب بھی جاری ہے۔

افغانستان میں منشیات کےکاروبا ر کا اقتصادی پہلو

سن 2021میں افغانستا ن میں افیون کی پیداوار سے ہونے والی آمدنی کا تخمینہ 1.8 بلین ڈالر سے 2.7 بلین ڈالر کے درمیان رہا۔ یوں یہ آمدنی افغانستان کی جی ڈی پی کا تقریباً 12 فیصد سے 14 فیصد حصہ بنتی ہے۔

لیکن گزشتہ سال طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہی افغانستان ایک معاشی بحران میں گھر گیا ہے جس کے تتیجے میں تقریباً تمام افغانوں کو غربت کا سامنا ہے۔ یہا ں تک کہ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

افغانستان: کیا پوست کی کاشت بچوں کو نشے کا عادی بنا رہی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:56 0:00

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی ایک سینئر فیلو وینڈا فیلباب براؤن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منشیات افغانستان جیسے غریب ملک میں معاشی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کی رقم طالبان کے ارکان کو بھی جا رہی تھی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ معاشی حالات میں منشیات کے طاقتور کاروبار کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے افغانستان میں غربت میں اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں طالبان کی مقامی مخالفت بھی ہو سکتی ہے۔

طالبان پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان میں منشیات کی غیر قانونی تجارت سے سینکڑوں ملین ڈالر کمائے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امریکی حکام کے مطابق سن 2018 اور 2019 کے درمیان طالبان گروپ نے منشیات کی تجارت سے 400 ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم کمائی۔

تاہم طالبان منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

محقق جاوید قائم کہتے ہیں کہ منشیات کے خلاف طالبان کی جنگ میں سست روی گروپ کےاندرونی اختلافات کے باعث ہو سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ "طالبان کے کچھ گروپ اس تجارت میں ملوث ہیں ، ان کے لیے اپنے لوگوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گا۔ اس سے اندرونی اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی قیادت اس وقت یہ خطرہ مول نہیں لے گی۔

منشیات پر کنٹرول صرف طالبان ہی کاکام نہیں

افغانستان کی تعمیر نو کے لئےخصوصی امریکی انسپکٹر جنرل کے دفتر کے مطابق امریکہ نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں انسداد منشیات کے منصوبوں پر 8.82 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کی تھی۔

اس حقیقت کے پیش نظر کہ افغانستان عالمی سطح پر استعمال کی جانے والی 80 فیصد سے زیادہ ہیروئن پیدا کرتا ہے، اقوام متحدہ، عالمی بینک اور یورپی یونین نے بھی افغانستان میں انسداد منشیات کی کوششوں میں مدد کی تھی۔

افغانستان کی سابق حکومت نے انسداد منشیات کی وزارت بھی قائم کی تھی لیکن تمام تر کوششوں اور رقوم خرچ کرنے کے باوجود افغانستان دنیا کا افیون پیدا کرنے والا نمبر ایک ملک ہی رہا۔

پچھلے سال طالبان کے افغانستان میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد غیر ملکی ڈونرز نے افغانستان کے لیے انسداد منشیات کے پروگراموں کی فنڈنگ سمیت ترقیاتی کاموں کے لیے امداد فراہم کرنا بند کر دی تھی۔

’’پوست کاشت نہ کریں تو کیا کریں‘‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:05 0:00

امریکہ کے افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی ادارے (سگار) کے انسپکٹر جنرل کے دفتر کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محکمہ خارجہ کی موجودہ پالیسی طالبان کی براہ راست مدد پر پابندی عائد کرتی ہے۔

البتہ ترجمان کے مطابق انسداد منشیات کے کچھ پروگرام بالواسطہ طور پر جاری رہتے ہیں جو شراکت داروں اور این جی اوز کے ذریعے چلائے جاتے ہیں - دیگر پروگراموں کو اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ختم کردیا گیا تھا یا انہیں روک دیا گیا تھا۔

طالبان حکام جنہیں اب اقتصادی پابندیوں کے تحت بین الاقوامی تنہائی اور دباو کا سامنا ہے کہتے ہیں کہ منشیات پر کنٹرول کرنے کے سلسلے میں انہیں غیر ملکی امداد کی ضرورت ہے کیونکہ ان علاقوں میں جہاں زیادہ تر پوست کی کاشت ہوتی ہے انہیں لوگوں کے لیے ذریعہ معاش کے متبادل ذرائع پیدا کرنے اور پوست کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے روزگار کے مواقع مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔

بروکنگز کی محقق فیلبیب براون کہتی ہیں کہ محض پوست کے کھیتوں کے خاتمے کے ذریعے مؤثر انسداد منشیات ناممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر طاقت کے استعمال پر بھروسہ نہیں تو معاشی آلات کے ذریعہ یہ کام کیا جانا چاہیے جو کہ مالی پابندیوں کے موجودہ حالات میں بھی ناقابل عمل دکھائی دیتا ہے۔

XS
SM
MD
LG