امریکی بحریہ کے جہازوں نے بحیرہ عرب میں ایک چھاپے کے دوران 385 کلوگرام یعنی 849 پاؤنڈ، ہیروئن ضبط کی ہے جس کی مالیت کا تخمینہ تقریباً 40 لاکھ ڈالر ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ اس خطے میں بین الاقوامی بحری آپریشن کی ایک بڑی کارروائی ہے۔
بین الاقوامی ٹاسک فورس نے ایک بیان میں کہا کہ یو ایس ایس ٹیمپیسٹ اور یو ایس ایس ٹائفون نے مشرق وسطیٰ کے پانیوں میں محو سفر مچھلیاں پکڑنے والی ایک کشتی پر چھاپہ مارا، جس پر کسی ملک کا پرچم نہیں تھا۔ تلاشی لینے پر کشتی میں چھپائی گئی منشیات کی ایک بڑی مقدار پکڑی گئی۔
امریکی بحریہ نے یہ کارروائی پیر کے روز کی۔
بحریہ نے کہا ہے کہ امکان یہ ہے کہ مچھلیاں پکڑنے والی یہ کشتی ایران سے آئی تھی۔ امریکی بحریہ مشرقی وسطیٰ میں تعینات پانچویں فلیٹ کے ترجمان کمانڈر ٹیموتھی ہاکنز نے کہا ہے کہ کشتی کے عملے کے تمام 9 ارکان نے بتایا ہے کہ وہ ایران کے شہری ہیں۔
تاہم، انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ پکڑی جانے والی منشیات کس نے تیار کیں تھیں اور انہیں کہاں بھیجا جا رہا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سال کے دوران، جب سے ٹاسک فورس نے اس علاقے کے پانیوں کی نگرانی کے لیے اپنی گشت میں اضافہ کیا ہے، سمندر میں کارروائیوں کے دوران 19 کروڑ 30 لاکھ ڈالر سے زیادہ مالیت کی غیر قانونی منشیات ضبط کی جا چکی ہیں۔ یہ مقدار گزشتہ چار برسوں کے دوران پکڑی جانے والی منشیات کی مجموعی مقدار سے زیادہ ہے۔
کیمیائی طریقوں سے تیار کردہ منشیات سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے گلوبل سنتھیٹک ڈرکس کے گزشتہ سال کے ایک تجزیے میں بتایا گیا تھا کہ ہیروئن کو ایران اور افغانستان سے زمینی راستے سے بلقان، قفقاز کے جنوبی پہاڑی سلسلوں یا سعودی عرب سے زمینی راستوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور یورپ تک میں اسمگل کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ اسمگلروں کا ہیروئن کو ایران سے جنوبی ایشیا میں پہنچانے کے لیے سمندری راستوں کے انتخاب میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں اکثر ایرانی اور پاکستانی ملاح سری لنکا کے قریب پکڑے جاتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ایران کی غیر محفوظ سرحد کی لمبائی 1,923 کلومیٹر یعنی 1195 میل ہے۔ افغانستان میں دنیا بھر کی سب سے زیادہ افیون کاشت کی جاتی ہے۔ اس غیر محفوظ سرحد کی وجہ سے ایران منشیات کی غیر قانونی تجارت کے لیے ایک ایسے اہم ملک میں تبدیل ہو گیا ہے جو اس کاروبار کے لیے راہداری کا کام دیتا ہے۔
(اس خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)