افغانستان کے صوبہ غور میں مشتبہ طالبان جنگجوؤں نے بسوں کو روک کر اُن میں سوار افراد پر فائرنگ کر کے کم ازکم 14 افراد کو ہلاک کردیا۔
صوبائی پولیس کے مطابق شدت پسندوں نے دو منی بسوں کو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب روک کر اُن میں سوار افراد کو نیچے اترنے کو کہا اور شناخت کرنے پر ہزارہ برادری کے افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
ہزارہ شیعہ برادری کے علاوہ باقی لوگوں کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم ان اطلاعات کی تاحال تصدیق نہیں ہوسکی کہ آیا شدت پسندوں کا نشانہ صرف شیعہ ہزارہ برادری کے لوگ تھے۔
اطلاعات کے مطابق بسوں پر 30 افراد سوار تھے جو کابل سے خریداری کے بعد واپس اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں تین خواتین اور ایک بچہ بھی شامل ہے۔
افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان صدیق صدیقی کے مطابق "طالبان کی طرف سے اس بلا امتیاز قتل کی وجہ لوگوں میں خوف و ہراس بڑھانا ہے۔"
صوبائی حکام کے مطابق عید کی خریداری کے لیے کئی دیگر علاقوں سے لوگ دارالحکومت کابل کا رخ کرتے ہیں اور عموماً گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے وہ رات کو سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس سے قبل بھی طالبان جنگجو ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملے کرتے آئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں افغانستان میں رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔