طالبان کی افغانستان میں حکومت پر جہاں شہری سخت سزاؤں کی ممکنہ واپسی سے خوف زدہ ہیں وہاں کئی لوگ اس بات سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں کہ گروپ کے آنے سے حکومتی عمل داری کے حلقوں میں بدعنوانی میں نمایاں کمی اور امن و امان میں بہتری آئی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے شہری جو اپنی شکایات کے ازالے کے لیے پولیس اسٹیشن کا رخ کرتے ہیں ان کے لیے یہ بات نئی معلوم ہوتی ہے کہ وہاں ماضی کے برعکس رشوت ستانی کے بغیر ان کی شنوائی ممکن ہے۔
ایک شہری حاجی احمد خان حال ہی میں کابل ڈسٹرکٹ آٹھ کے پولیس اسٹیشن پر انصاف کی تلاش میں قطار میں کھڑے تھے۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں یہ تجربہ ہوا کہ طالبان جو اب پولیس کے اہلکار ہیں رشوت نہیں لیتے۔
حاجی خان نے اے پی کو بتایا کہ"اس سے قبل ہر کوئی ہمارا پیسہ چرانے پر لگا ہوا تھا۔ گاؤں میں، حکومتی دفاتر میں، ہر جگہ لوگوں کے ہاتھ پیسے لینے کے لیے کھلے تھے"۔
بہت سے افغان شہری طالبان کے جابرانہ طریقوں، ان کے سخت نظریات اور خواتین کی آزادی پر قدغن لگانے کے معاملات سے خوف زدہ ہیں۔
لیکن سخت انداز والی حکومت کے ساتھ ساتھ طالبان اس بات کے لیے مشہور ہیں کہ وہ بدعنوانی میں ملوث نہیں ہوتے۔ ان کے متعلق یہ خیال معزول حکومت سے بلکل مختلف ہے، کیونکہ معزول حکومت رشوت ستانی، غبن اور اور مالی بدعنوانی کی وجہ سے بدنام تھی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو ہاتھ کاٹنے جیسی سزاوں سے خائف ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے اگست میں آنے کے بعد دارالحکومت کابل میں کچھ سلامتی لوٹ آئی ہے۔
خبر کے مطابق پچھلی حکومت کے دور میں چوروں کے ٹولوں نے لوگوں کو اندھیرے کے بعد گھروں تک محدود کردیا تھا۔ اب شہر کی کئی سڑکوں کو کھول دیا گیا ہےاور کچھ بین الااقوامی امدادی تنظیموں کو ان راستوں پر سفر کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
لیکن، ابھی بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ گذشتہ اتوار کابل کی عید گاہ مسجد کے باہر ایک بم دھماکے میں اس وقت کئی شہری ہلاک ہوگئے جب جنازے کے لیے وہاں موجود طالبان کو اس حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
اس حملے کی کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن داعش یا اسلامک اسٹیٹ گروپ نے افغانستان کے مشرق میں اپنے گڑھ میں طالبان کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ جب طالبان 1990 کے عشرے میں حکومت میں آئے تھے تو انہوں نے افغان شہریوں کو استحکام تو فراہم کیا اور بدعنوانی کا بھی قلع قمع کیا، لیکن اس کےبدلےمیں انہوں نے سخت اسلامی قانون نافذ کر دیا۔ اس وقت برسرعام دی جانے والی سزاوں میں ہاتھ کاٹنا، قاتلوں کو سروں پر گولی مار ہلاک کرنا شامل تھیں۔ اس کے علاوہ مذہب کے نفاذ کی پولیس کی جانب سے مردوں کو نماز نہ ادا کرنے اور داڑھی کو تراشنے پر زد و کوب کیا جاتا تھا۔
طالبان کے انسداد جرائم کے محکمے کے مطابق گذشتہ ہفتے طالبان نے 85 مجرم پیشہ عناصر کو گرفتار کیا، ان میں کچھ لوگوں پر معمولی چوری کا الزام تھا، جبکہ دوسروں پر قتل، اغوا اور ڈاکہ زنی کے الزامات تھے۔
یاد رہے کہ طالبان نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اس وقت کی سزائیں بحال کردیں گے۔ لیکن سابقہ وزیر برائے انصاف اور موجودہ دور میں جیلوں کے منتظم ملا نور الدین ترابی کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کیا طالبان یہ سزائیں پھر سے برسرعام دیں گے۔
کچھ سزائیں پہلے ہی بحال کردی گئی ہیں۔ حال ہی میں ہرات شہر میں ان چار افراد کی لاشوں کو کرین کےساتھ لٹکا دیا گیا جن پر الزام تھا کہ وہ اغوا کی واردات میں ملوث تھے۔
دارالحکومت کابل میں دو معمولی چوری کے مرتکب افراد کو ہتھکڑی لگا کر، ان کے چہروں پر رنگ لگا کر اور ان کے منہ میں باسی روٹی ٹھونس کر شہر کی گلیوں میں گھما کر شرمندہ کیا گیا۔
کلاشنکوف سے لیس طالبان کابل میں سیکیورٹی برقرار رکھنے کا کام پولیس کی طرح کر رہے ہیں۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق، طالبان کے اگست میں حکومت سنبھالنے سے پہلے لوگوں کو یوٹیلٹی بل جمع کرانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی تھی۔ لیکن اے پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بدعنوانی کے باوجود امریکہ اور یورپ کے ممالک نے اربوں ڈالرز خرچ کیے۔
اسکول کے ایک پرنسپل نے، جو پولیس اسٹیشن اسکول فیس ادا نہ کرنے والے والدین کے خلاف شکایت لے کر آئے تھے، نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر اے پی کو بتایا کہ وہ طالبان کو حکومت کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ دور میں وہ جب بھی شکایت کے لیے پولیس اسٹیشن آتے تھے تو انہیں رشوت دینا پڑتی تھی۔
[اس خبر میں دی گئی معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہے]