امریکی پلاسٹک سرجن قومی علی زادہ ایک افغان بچے کے جسم میں ایک پیدائشی نقص کا معائنہ کر رہے ہیں۔ بچے کو پیدا ہوئے صرف 12 گھنٹے ہوئے ہیں۔ اس بچے کا حرام مغز اس کے جسم کے باہر نکلا ہوا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کے دوران بچے کی ماں نے صحیح غذا نہیں کھائی ۔ ڈاکٹر علی زادہ کو امید ہے کہ اس نقص کو دور کرنے کی سرجری، افغان ڈاکٹروں کو سکھا سکیں گے ۔
’’افغانستان میں حالات یہ ہیں کہ دو کروڑ 90 لاکھ آبادی والے اس ملک میں صرف دو پوری طرح تربیت یافتہ پلاسٹک سرجن ہیں، اور وہ دونوں بھی صرف کابل کے علاقے میں ہیں۔‘‘
علی زادہ کا منصوبہ ہے کہ وہ جنوری میں دو دوسرے سرجنوں اور ایک میڈیکل ٹیم کے ساتھ یہاں آئیں، پلاسٹک سرجری کے تیس چالیس پیچیدہ آپریشن کریں اور اس عمل کے دوران یہاں افغانوں کو یہ کام کرنا سکھائیں۔
افغانستان کو صرف پلاسٹک سرجنوں کی نہیں بلکہ ہر قسم کے طبی عملے کی ضرورت ہے ۔ دس سال قبل طالبان کے زوال کے بعد سے اب تک ملک میں علاج معالجے کے نظام میں، سند یافتہ طبی کارکنوں اور دوسرے ضروری سہولتوں کی شدید قلت ہے۔
ڈاکٹر علی زادہ کہتے ہیں’’ہم امریکہ سے ماہرین کو یہاں لانا چاہتے ہیں تا کہ وہ یہاں مقامی ہسپتالوں اور وزارتِ صحت کے ساتھ مل کر پلاسٹک سرجنوں کے لیے ایک تعلیمی پروگرام کا نصاب تیار کریں اور یہاں عملے کو تربیت دیں تا کہ بعض پیچیدہ کیسوں کی سرجری یہاں کی جا سکے۔‘‘
میڈیکل اسٹوڈنٹ بریشنا رحیمی کہتی ہیں’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں تربیت دیں کیوں کہ وہ یہاں مختصر وقت کے لیے آتےہیں، اور ہمیں یہاں پوری زندگی گذارنی ہے ۔ لہٰذا ہمیں ماہر ہونا چاہیئے ۔ جو طبی امداد ملک کے باہر دستیاب ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ملک کے اندر بھی موجود ہو ۔ ہم میں صلاحیت تو موجود ہے، لیکن ہمیں مواقع نہیں ملتے۔‘‘
ہسپتال کے ڈائریکٹر کا بھی یہی خیال ہے۔ ڈاکٹر رِک میننگ کہتے ہیں کہ ملک کے مستقبل کا دارومدار افغانوں کو تربیت دینے پر ہے ۔’’یہ لوگ یہاں رہتے ہیں، وہ یہاں کے کلچر سے واقف ہیں، اور ان کو یہاں آنے والی نسلوں کی خدمت کرنی ہے۔ اگر ہمیں یہاں ٹریننگ دینے کے لیے آنا نہ پڑے، تو ہم یہاں رہنا نہیں چاہتے۔‘‘
لیکن ڈاکٹر رِک میننگ کہتے ہیں کہ افغانستان میں علاج معالجے کے نظام کو جو مسائل درپیش ہیں، ان میں ایک سب سے بڑا مسئلہ یہاں کا نظام ہے۔’’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم لوگوں کو تربیت دے دیں تو پھر انہیں یہاں رہنے پر آمادہ کس طرح کیا جائے کیوں کہ وہ بہت جلد مایوس ہو جاتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ وہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں، ان کے پاس تمام ضروری مہارتیں ہوتی ہیں، اور انہیں ایسے سسٹم میں کام کرنا پڑتا ہے جو کرپٹ ہے، جس میں انہیں اپنی مہارتوں کے استعمال کا موقع نہیں ملتا ۔ لہٰذا ہمیں ایسے طریقے معلوم کرنے ہیں کہ انہیں ملک میں رہنے پر آمادہ کیا جا سکے اور وہ اگلی نسل کی تعلیم جاری رکھ سکیں۔‘‘
علی زادہ کہتے ہیں کہ ان کے پراجیکٹ میں، سیکھنے کا عمل یکطرفہ نہیں ہو گا۔’’ہم نیو یارک میں چند بڑے سینٹرز چلا رہےہیں، اور ہمیں اتنے بڑے پیمانے پر مریضوں کو دیکھنے کا موقع نہیں ملتا ۔ ہم بھی مقامی سرجنوں کی طرح بہت کچھ سیکھیں گے۔‘‘
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اصل اہمیت کام کی نہیں ہے بلکہ اس بات کی ہے کہ ہم اس تجربے سے کیا کچھ سیکھتے ہیں۔’’آپریشن تو ہمیشہ ہوتے ہی رہیں گے۔ میرے خیال میں ہمارا اصل ورثہ یہ ہوگا کہ ہم ایسا بنیادی ڈھانچہ تخلیق کر دیں جس کے ذریعے مقامی لوگ ایسے کیسوں کا خود علاج کر سکیں۔‘‘
افغانستان سے امریکہ واپس آنے کے بعد بھی، امریکی ڈاکٹر ہفتے وار انٹرنیٹ وڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنے افغان ساتھیوں کو صلاح و مشورہ دیتے رہیں گے ۔