افغانستان میں جاری کشمکش کے اِس وقت چھ اہم فریق ہیں۔ تین ریاستی: یعنی امریکہ، افغانستان اورپاکستان اور تین غیر ریاستی : یعنی، ملّا عمر کے تحت طالبان ، حقّانی نیٹ ورک اور گلبدین حکمت یار کی سربراہی میں حزبِ اسلامی۔ اِن تمام فریقوں میں کسی نہ کسی سطح پر بات چیت یا تو جاری ہےیا ماضیِ قریب تک جاری تھی اور اسے دوبارہ شروع کرنے کے راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق، بات چیت کی نہ جانے کتنی خفیہ راہیں اختیار کی گئی ہوں، کتنے چینل کھلے ہوں، لیکن ہم یہاں منظرِ عام پر آنے والی بات چیت کا ذکرکریں گے۔
سب سے پہلا اور واضح چینل ہے امریکہ، افغانستان اور پاکستان کے درمیان۔ کہنے کو یہ تین ممالک ایک دوسرے کے حلیف ہیں لیکن سب کی اپنی اپنی اسٹریٹجک اور سیاسی ترجیحات ہیں، جن پر اب تک اتفاق نہیں ہو سکا۔ یعنی، یہ تینوں ممالک اس پر اتفاق نہیں کر سکے کہ بیرونی طاقتوں کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کون سا نسلی گروہ کس نسبت سے اقتدار میں شریک ہونا چاہیئے۔
دوسرا اہم چینل ہے امریکہ اور طالبان کے درمیان۔ ذرائعِ ابلاغ اور جنوبی ایشیا کے ماہرین کےمطابق اِس سال قطر اور جرمنی میں ملّا عمر کے ساتھی سیّد طیّب آغا کی امریکی عہدیداروں سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ افغان امور کے ماہر اور کتاب ’طالبان‘ کے مصنف احمد رشید کے مطابق ملّا عمر بھی اپنے پیغامات میں امریکیوں سےبات چیت کا اعتراف کر چکے ہیں۔ البتہ، اُن کےمطابق یہ بات چیت سیاسی مسائل پر نہیں بلکہ محض قیدیوں کی رہائی کے لیے تھی۔
البتہ، مسٹر رشید لکھتے ہیں کہ ’امریکیوں سے کسی بھی قسم کی بات چیت کا اعتراف کر کے ملّا عمر نے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مستقبل میں سیاسی بات چیت کا امکان ہے۔‘
تیسرا چینل ہے امریکیوں اور حقّانی نیٹ ورک کے درمیان۔ افغان امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی آئی ایس آئی کی مدد سے امریکیوں اور حقّانی نیٹ ورک کے درمیان ایک ملاقات ہوئی تھی ۔ لیکن، اِس کے بعد کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوگیا جِس کے لیے حقّانی نیٹ ورک کو ذمّہ دار قرار دیا گیا۔ اسی لیے، ’ہیریٹیج فاؤنڈیشن‘ کی لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ اِس ملاقات کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا۔
اُن کے مطابق: ’ وردک میں ہم پر جو دو بڑے حملے ہوئے ہیں، جہاں خود کش حملے میں اتحادی افواج کے 77فوجی زخمی ہوئے اور دو روز کے بعد کابل میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا، اور یہ بھی حقانیوں نے کیا تھا، تو میں کہوں گی کہ وہ ملاقات ناکام رہی تھی۔ ‘
لیکن، اگر ملّا عمر امریکیوں سےبات چیت کر رہے ہیں تو مبصرین کے مطابق حقّانی بھی یہ چاہیں گے کہ اُن کی امریکیوں سے علیحدہ کوئی ڈیل ہو۔
دوسری طرف، افغانستان کے صدر حامد کرزئی بھی اپنے طور پر تمام غیر ریاستی فریقوں، یعنی طالبان، حقّانی نیٹ ورک، اور حزبِ اسلامی سے بات چیت کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن، سابق صدر برہان الدین ربانی کی ہلاکت کی وجہ سے لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی یہ کوششیں فی الوقت ترک کر دی ہیں۔
صدر ربّانی اُس امن کونسل کے سربراہ تھے جسے طالبان اور ملّا عمر سے بات چیت کےلیے کی تشکیل دیا گیا تھا اور جِس شخص نے صدر ربّانی کو خود کُش حملے میں ہلاک کیا وہ مبیّنہ طور پر طالبان کا آدمی تھا ۔ ابھی تک یہ سامنے نہیں آ سکا کہ صدر ربّانی کی ہلاکت کا ذمّہ دار کون سا گروہ ہے۔
دوسری طرف، صدر کرزئی نے اِس ہلاکت پر اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو کہا کہ اُن کے پاس طالبان کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ اِس لیے شاید اُنھیں پاکستان سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اُن کا اشارہ اِس الزام کی طرف تھا جو امریکہ اور افغانستان کی طرف سے پاکستان پر بار بار لگایا جاتا ہے کہ طالبان کی لیڈرشپ پاکستان میں چھپی بیٹھی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ کے دورہِ افغانستان کے دوران صدر کرزئی نے اُن پر واضح کر دیا کہ صدر ربّانی کی ہلاکت کے بعد وہ اب کسی بھی گروہ کے مبیّنہ انفرادی نمائندوں سے بات چیت نہیں کریں گے۔ بلکہ، بات چیت اگر ہوگی تو ایک باضابطہ عمل کے تحت جِس میں اُنھیں علم ہو کہ بات کس سے کی جا رہی ہے۔
چنانچہ، وزیر خارجہ کلنٹن کے مطابق امریکہ اب کوشش کرے گا کہ مذاکرات کے ایک عمل کو آگے بڑھایا جائے جِس میں کم از کم یہ پتہ چل سکے کہ آیا کچھ طالبان ایسے ہیں جو تشدّد کو ترک کر کے القاعدہ سے اپنے تعلقات ختم کرنے اور افغانستان کے آئین اور انسانی حقوق کو ماننے کو تیار ہیں یا نہیں۔
لیکن، اِس قسم کےعمل کو امریکہ نے پہلے بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ لندن میں2010ء میں ہونے والی کانفرنس میں اچھے اور برے طالبان کی اصطلاحات سامنے آئی تھیں۔ مگر اُن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آیا، اور مبصرین کے مطابق ،کم از کم اب تک طالبان کے کسی اہم گروہ نے ملّا عمر کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی اہم طالبان کمانڈرز نے انفرادی طور پر امریکہ یا صدر کرزئی کی طرف دوستی کے ہاتھ بڑھائے۔
شطرنج کی اِس بساط کے تمام مہرے جانتے ہیں کہ بالآخر افغانستان کے مسائل کا حل فوجی نہیں سیاسی ہے۔ مگر ایک تو ہر فریق یہ چاہتا ہے کہ مذاکرات میں اُس کی پوزیشن مضبوط ہو اور مخالف کی کمزور، جِس کے لیے تشدد کا سہارا لیا جا رہا ہے، جِس کی وجہ سے بات چیت کے عمل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
دوسرے مذکورہ بالاچھ فریقوں کے علاوہ کچھ عناصر ایسے ہیں جِن کا اِس بات چیت میں نقصان ہے۔ مثلًا القاعدہ۔ چنانچہ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اِس بات چیت کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہوں۔ اور تیسرے خود اِن گروہوں کے اندر ایسے عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ بات چیت کی وجہ سے انہیں اپنے موقف پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔