پیر کے روز برسلز میں ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرس کے رہنماؤں نے چین کو ایک مسلسل خطرہ قرار دیا اور روس کی بعض فوجی سرگرمیوں کو 'جارحانہ' قرار دیا ہے۔
نیٹو سربراہ کانفرنس کے ایک بیان میں اتحاد کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ چین کے عزائم اور جارحانہ رویہ قوانین اور ضابطوں کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی نظام اور نیٹو اتحاد کی سیکیورٹی سے متعلقہ شعبوں کے لیے باقاعدہ مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
30 ملکوں کے سربراہوں اور حکومتوں نے اگرچہ چین کو دشمن کہنے سے احتراز کیا تاہم انہوں نے چین کی بعض پالیسیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ مبہم انداز میں اپنی مسلح افواج کو جدید بنانے اور ڈس انفارمیشن پھیلانے کی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ پیغام صدر بائیڈن کی اس سوچ سے مطابقت رکھتا ہے جس میں وہ چاہتے ہیں کہ عالمی رہنما چین کی معاشی، فوجی اور انسانی حقوق سے متعلق سرگرمیوں کے خلاف یک زبان ہو کر آواز اٹھائیں۔
نیٹو ملکوں کے رہنماوں نے اپنے اعلامئے میں روس کی بعض فوجی سرگرمیوں کو بھی 'جارحانہ'قرار دیا اور نیٹو اتحاد میں شامل ملکوں کی سرحدوں پر روس کی جنگی کارروائیوں اور روسی طیاروں کی جانب سے ان ملکوں کی فضائی حدود کی بار بار خلاف ورزی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ روس نے نیٹو اتحاد میں شامل ملکوں کے خلاف کئی قسم کے ملے جلے اقدامات کئے ہیں، جن میں ان کے انتخابی عمل میں مداخلت کی کوششیں، سیاسی اور معاشی دباو میں اضافہ، ڈس انفارمیشن کی مہمات اور سائبر حملے شامل ہیں۔ اور جب تک روس بین الاقوامی قوانین کی مکمل پاسداری کے لئے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا، اس کی ساتھ 'معاملات معمول پر' نہیں آسکتے۔
انہوں نے صدر بائیڈن سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے وابستہ رہنے اور سنجیدگی سے عمل کرنے کی اپیل کی۔
صدر بائیڈن کی ترک صدر اردوان سے ملاقات
نیٹو سربراہ کانفرنس کے موقع پر ہی صدر بائیڈن نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور کئی دوسرے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
صدر اردوان سے ملاقات کو بائیڈن نے 'بہت اچھا' قرار دیا تاہم تفصیل بتانے سے انکار کیا۔
امریکہ اور ترکی دونوں نیٹو اتحادی ہیں، لیکن واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان روس سے جدید ہتھیاروں کی خریداری سمیت متعدد امور پر شدید اختلافات پائےجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے امریکہ نے ترکی کو جدید جنگی لڑاکا طیارے ایف -35 کے پروگرام سے الگ کر کے اس کی دفاعی صنعت کے کئی عہدے داروں پر پابندیاں نافذ کر دیں تھیں۔
پیر کو صدر بائیڈن نیٹو سربراہی اجلاس میں پہلی بار شرکت کے لیے اس اعلان کے ساتھ پہنچے کہ امریکہ ایک بار پھر اس مغربی اتحاد میں واپس آ گیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینز سٹولٹن برگ کے ساتھ ملاقات میں صدر بائیڈن نے کہا کہ میں تمام یورپی ملکوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ اب یہاں موجود ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ اَرٹیکل فائیو کو ایک مقدس ذمہ داری سمجھتےہیں۔ یہ اَرٹیکل اجتماعی دفاعی اصول کے تحت فوجی اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد دوسری جنگ عظیم میں تھا، جب امریکہ نے اس میں حصہ لیا اور پھر اس وقت بھی تھا جب پہلی بار امریکہ کی سرحدوں کے اندر حملہ ہوا ۔ وہ 11 ستمبر 2001 میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کا حوالہ دے رہے تھے۔
اس ملاقات میں سٹولٹن برگ نے کہا کہ وہ بائیڈن سے چین اور روس کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے کے سدباب کے بارے میں مشاورت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی اس مسئلے کے بارے یکساں رائے رکھتے ہیں۔ سٹولٹن برگ نے یہ بھی کہا کہ ہم امریکہ پر اعتماد رکھتے ہیں اور امریکہ بھی یورپ پر بھروسا کر سکتا ہے۔
برسلز میں نیٹو کے صدر دفتر میں پیر، 14 جون کو پہلا مکمل اجلاس منعقد ہوا جس میں نیٹو ممالک کے لیڈروں نے شرکت کی۔
اس فوجی اتحاد کے ملکوں کے درمیان تعلقات کو تقویت دینے کے سلسلے میں بائیڈن کی شرکت یقیی طور اہم ہے۔ لندن میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کی تجزیہ کار ایلس گیلینڈ کہتی ہیں کہ اس اجلاس کے روشن پہلو نمایاں ہیں اور اس میں اتحادی ممالک جمہوری اقدار جیسے کلیدی معاملات پر ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں گے۔
چین اس کانفرنس میں نمایاں طور پر موضوع بحث رہے گا کیونکہ اس کی جانب سے سیکیورٹی خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ بلقان ریاستوں سے لے کر افریقہ تک چین کی عسکری موجودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کو تیار رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چین ہمارے قریب آتا جا رہا ہے، چاہے وہ سائبر سپیس ہو یا افریقہ، اور اس کے ساتھ ساتھ چین ہمارے اہم انفراسٹرکچر پر بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اس کانفرنس سے ایک دن پہلے ان میں سے اکثر رہنما کورنوال، برطانیہ میں جی سیون سربراہی میں ایک دوسرے سے مل چکے ہیں۔ اس اجلاس میں چین سے کہا گیا کہ وہ اپنے انسانی حقوق کے معاملات درست کرے۔ اس کے جواب میں چین نے کہا ہے کہ یہ گروپ اپنی شہرت کو داغدار کر رہا ہے۔
ماضی کی طرح اس بار بھی نیٹو کے سربراہی اجلاس میں روس کے ساتھ تعلقات کا معاملہ سرفہرست ہے۔ روس کی مشرقی حصوں میں جارحانہ کارروائیاں جاری ہیں، ساتھ در پردہ سائبر حملوں کے ذریعے مغربی ملکوں کے لیے مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ ماسکو ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
امریکی ٹی وی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے روسی صدر پوٹن نے کہا تھا کہ نیٹو سرد جنگ کی باقیات ہے، مجھے یقین نہیں کہ اب اس کا کوئی وجود ہے یا نہیں۔
صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ روس اور چین ہماری توقعات پر پورا نہیں اتر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن چین اور روس کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے مغربی ملکوں کی عشروں سے جاری کوششوں کا حوالہ دے رہے تھے۔
نیٹو کے اس اجلاس کے دوران صدر بائیڈن ایسٹونیا، لیٹویا اور لیتھونیا کے لیڈروں سے علیحدہ ملاقات کریں گے، یہ وہ ملک ہیں جو 1991 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد ہو گئے تھے اور اب یہ نیٹو کے رکن بن چکے ہیں۔ ان کے علاوہ صدر بائٰیڈن ترکی کے صدر اردوان سے بھی ملاقات کریں گے۔
بدھ کے روز جینیوا میں صدر بائیڈن روسی صدر ولادی میر پوٹن سے ملاقات کریں گے۔