رسائی کے لنکس

پی ٹی آئی، متحدہ: ’زبانی جنگ‘ کے بعد ’انتخابی جنگ‘ میں دوبدو


این اے 246 پر 23 اپریل کو ہونے والے یہ انتخابات ’ضمنی‘ ہوں گے۔ لیکن، اس حلقے میں متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی دفتر ’نائن زیرو‘ اور اس پر ہونے والے رینجرز کے حالیہ آپریشن کے بعد یہ ’عام انتخابات‘ کی طرح ہی اہم سمجھے جا رہے ہیں

پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان کافی عرصے سے جاری ’زبانی۔کلامی جنگ‘ کے بعد اب ’انتخابی جنگ‘ لڑنے کے دن قریب آگئے ہیں۔ سیاسی بساط پر گہری چالوں کا تجزیہ کرنے والوں اور مبصرین کو ایک روز بعد شروع ہونے والے مہینے میں دونوں جماعتوں کے درمیان ایک بڑے انتخابی معرکے کی توقع ہے۔

اگرچہ قومی اسمبلی کی نشست این اے 246 پر 23 اپریل کو ہونے والے یہ انتخابات ’ضمنی‘ ہوں گے، لیکن اس حلقے میں متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی دفتر ’نائن زیرو‘ اور اس پر ہونے والے رینجرز کے حالیہ آپریشن کے بعد یہ ۔۔۔’عام انتخابات‘ کی طرح ہی اہم سمجھے جا رہے ہیں۔

ایم کیو ایم کو فخر ہے کہ وہ ہمیشہ یہاں سے جیتتی رہی ہے اور اب بھی اپنا ’مضبوط گڑھ‘ ہونے کی وجہ سے جیت جائے گی، جبکہ پی ٹی آئی کو بھروسا ہے کہ جب وہ 2013 ء کے انتخابات میں ایک غیر معروف امیدوار کے ہوتے ہوئے دوسرے نمبر پر آسکتی ہے تو کوئی بعید نہیں اس بار پہلا نمبر اس کا ہو۔

معرکہ کون جیتے گا اس کا فیصلہ تو آنے والے وقت میں ہی ہوگا۔ لیکن، جیتنے کے لئے دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کمر باندھ لی ہے۔ متحدہ نے کنور نوید جمیل اور پی ٹی آئی نے عمران اسماعیل کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ جماعت اسلامی، پی پی پی، مسلم لیگ نون وغیرہ کی جانب سے مجموعی طور پر 21 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ فہرست 2 اپریل کو جاری ہوگی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ نتائج کے مطابق یہ نشست 2013ء کے انتخابات میں متحدہ کے امیدوار نبیل احمد گبول نے 1 لاکھ 37 ہزار 8سو 74 ووٹ لے کر جیتی تھی، جبکہ ان کے قریب ترین حریف پی ٹی آئی کے عامر شرجیل تھے جنہوں نے 31 ہزار 8 سو 75 ووٹ لئے تھے۔

نبیل گبول نے پچھلے ماہ یعنی فروری میں پارٹی سے اختلافات کے باعث استعفیٰ دے دیا تھا، جس کی وجہ سے یہاں ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا۔

شروع ہی سے متحدہ کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقے این اے 246 سے کسی اور پارٹی کے امیدوار کا اتنے ووٹ لے جانا پی ٹی آئی کے لئے امید کی کرن اور متحدہ کے لئے حیران کن تھا۔ اب پی ٹی آئی اسی بنیاد پر اس حلقے سے متحدہ کے دوبدو ہے۔

عمران اسماعیل پی ٹی آئی کے سرگرم کارکن ہیں۔ 2014ء میں ہونے والے دھرنوں میں کراچی سے باربار ان کا نام لیا جاتا رہا۔ یہیں سے ان کی شہرت ایک اہم کارکن کی حیثیت سے سامنے آئی۔ وہ انتخابی معرکہ سے متعلق کہتے ہیں ’اس حلقے سے انتخاب جیتنا گویا پورے شہر کو فتح کرنا ہے۔ یہ حلقہ ایک طرح سے ٹیسٹ ہے۔‘

علاقہ مکینوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے پی ٹی آئی نے اپنے ترکش سے ایک اور تیر باہر نکال کر کمان پر چڑھادیا ہے۔ یہ تیر 19اپریل کو چلایا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے اس روز ’مکہ چوک‘ عزیز آبادکے قریب واقع لال قلعہ گراوٴنڈ میں عوامی جلسے کا اعلان کیا ہے۔ اس گراوٴنڈ میں متحدہ کے علاوہ اب تک کسی بھی جماعت نے جلسہ منعقد کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ یہ ایم کیو ایم کی’ فیورٹ‘ جلسہ گا ہ ہے۔

ایک پارٹی عہدار نے وی او اے کو بتایا کہ انتخابی مہم کو کامیابی سے چلانے کے لئے عمران خان نے بھی کراچی آنے اور جناح گراوٴنڈ میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک اہم عہدار ارسلان گھمن کے مطابق ’عمران اسماعیل پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل، میڈیا ایڈوائزر اور ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کا پارٹی میں ان کا اچھا اثر و رسوخ بھی قائم ہے۔‘

ایم کیو ایم ان سے مقابلے کے لئے کنور نوید جمیل کو میدان میں اتار رہی ہے جو رابطہ کمیٹی کے رکن ہیں۔چونکہ کہ نائن زیرو پر رینجرز کے حملے کے بعد سے ایم کیوایم کو مشکل حالات کا سامنا ہے چنانچہ اس نے اس نششت پر پرانے امیدوار کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

کنور نوید جمیل نے سنہ 2002 کے انتخابات میں اسی نشست سے کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ طویل عرصے سے ایم کیو ایم سے وابستہ ہیں۔ ان کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ وہ حیدرآباد کے ناظم، رکن قومی اسمبلی اور رکن سندھ اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔

پی ٹی آئی سال 2013ء کے عام انتخابات میں دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئی تھی۔ اس حوالے سے وہ ضمنی انتخابات کو بہت اہمیت دے رہی ہے۔ تاہم، دونوں جماعتوں کے درمیان حال ہی میں سخت بیانات، ایک دوسرے کے خلاف نامناسب زبان، الزامات کی بوچھاڑ اور گرماگرمی نے انتخابات کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ سخت مقابلے کی فضاء ہے اور انتخابات جتنا دونوں نے ہی اپنے لئے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔

XS
SM
MD
LG