وفاقی وزارت خزانہ نے پاکستان میں زرعی شعبے کی تین سال کی کارکردگی کے حوالے سے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ مالی سال 2008ء سے 2011ء کے دوران زرعی شعبے میں ہونے والی ترقی مطلوبہ اہداف سے کم رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق خام ملکی پیداوار میں زراعت کا حصہ 4 فیصد سے کم ہو کر 1 اعشاریہ 2 فیصد رہ گیا ہے، جس کے آنے والے سالوں میں ملک کی معاشی شرح نمو اور غربت کے خاتمے کے لیے کی جانی والی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان کی کل افرادی قوت کو تقریباً 44 فیصد زرعی شعبے سے وابستہ ہے اور گزشتہ دو سال کے دوران آنے والے سیلاب اور طوفانی بارشوں سے زراعت متاثر ہوئی جس سے زرعی اراضی کا تقریباً 20 فیصد رقبہ زیر آب آیا اور وسیع رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔
رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملکی معشیت میں زرعی شعبے کی اس قدر اہمیت کے باوجود حکومت کی جانب سے یہ شعبہ عدم توجہ کا شکار رہا ہے۔
ملک بھر کو خوراک کا بیشتر حصہ فراہم کرنے والے صوبے پنجاب کے زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی کہا تھا کہ پاکستان میں وسائل کی کمی کے باعث زرعی شعبے پر کی جانے والی تحقیق کا دائرہ کار محددو ہے اور خام ملکی پیداوار کا محض اعشاریہ دو پانچ فیصد زرعی تحقیق کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔
جبکہ پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور بھارت خام ملکی پیداوار کا بالترتیب اعشاریہ تین اور اعشاریہ چار فیصد زرعی شعبے کی تحقیق پر خرچ کرتے ہیں۔
کسانوں کی نمائندہ تنظیم ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ابراہیم مغل کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں کھاد، بیج اور کیڑے مار ادویات مہنگی ہونے کے باعث زراعت منافع بخش کاروبار نہیں ہے۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس شعبے میں تحقیق نہ ہونے کے باعث فی ایکڑ زرعی پیداوار کم ہو رہی ہے۔
’’زراعت کے شعبے کو اگر خام مال ( کھاد،بیج،پانی، کیڑے مار ادویات) مقررہ وقت اور مناسب قیمت پر فراہم کی جائیں، پیداوارکی اچھی قیمت ملے، پانی کی فراہمی صحیح ہو تو موجودہ پیداوار پانچ سال میں دوگنی ہو سکتی ہے۔‘‘
وفاقی حکومت کی اس جائزہ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ زرعی شعبے کی بہتری کے لیے حکومت کو فصلوں کا بیمہ، پانی کی فراہمی، خوراک ذخیرہ کرنی سہولت اور دیہی علاقوں سے منڈیوں تک سڑک کی تعمیر جیسے اقدامات کرنا ہوں گے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں زرعی شعبے کی ناقص کارکردگی اور تحقیق کے فقدان کے باعث پاکستان جیسے زرعی ملک کو سالانہ خطیر زرمبادلہ کپاس اور دالوں سمیت دیگر زرعی اجناس کی درآمد پر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس شعبے پر عدم توجہ کے غربت کے خاتمے کے لیے کئے گئے اقدامات پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔