پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی پولیس نے پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کے قتل کی تصدیق کی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات کو تھانہ انقلاب کی حدود میں واقع اسکیم چوک کے علاقے میں ڈاکٹر عبدالقادر اپنے کلینک میں موجود تھے کہ ایک شخص نے فائرنگ کر کے اُنہیں قتل کر دیا۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ قاتل کو موقع پر گرفتار کرلیا گیا ہے، تاہم پولیس اہلکاروں نے مزید تفصیلات دینے سے گریز کرتے ہوئے قاتل کا نام احسان اللہ ولد عبد القیوم بتایا ہے۔
قتل کیے جانے والے ڈاکٹر عبدالقادر کا تعلق بڈھ بیر سے ملحقہ گاؤں شیخ محمدی سے بتایا جاتا ہے۔ جہاں احمدی برادری کے ایک عمر رسیدہ شخص کو چند مہینے قبل نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے پشاور میں عہدے دار شاہد محمود نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے غیر انسانی فعل قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام میں کسی بھی انسان کے قتل کی اجازت نہیں۔
شاہد محمود نے حکومت سے اس قسم کے واقعات کی روک تھام کا مطالبہ بھی کیا۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے واقعے کی مذمت کی۔ اپنی ٹوئٹ میں سلیم الدین نے کہا کہ آج ایک اور بلااشتعال فائرنگ کے واقعے میں ایک احمدی ڈاکٹر کو قتل کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق خیبرپختونخوا میں رواں سال احمدی کمیونٹی کے کسی شخص کو قتل کیے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ تاہم ملک کے مختلف شہروں میں احمدی ہونے کی بنا پر قتل کی وارداتیں ہوتی رہی ہیں۔
گزشتہ سال پشاور کی حدود میں کم از کم چار افراد کو احمدی ہونے کی بنیاد پر قتل کیے جانے والے افراد میں طاہر نسیم نامی امریکی شہری کو پشاور کی ایک عدالت کے اندر 29 جولائی 2020 کو قتل کر دیا گیا تھا۔
قتل کیے جانے والوں میں ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر خالد الدین خٹک اور پشاور کے ڈبگری گارڈن میں میڈیکل اسٹور کے مالک ڈاکٹر معراج احمد بھی شامل تھے۔
طاہر نسیم کے قتل میں ایک وکیل سمیت تین افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت آخری مراحل میں ہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں سے وابستہ افراد مذہبی منافرت اور عقیدے کی بنیاد پر قتل کے ان واقعات کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام نہ ہونے پر پولیس کو بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
البتہ، حکومتِ پاکستان کا یہ موٗقف رہا ہے کہ ملک میں تمام مذاہب اور اقلتیوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔