غیر قانونی منشیات کے خلاف موجودہ قومی اور عالمی پالیسیاں فیل ہو چکی ہیں ان پالیسیوں کو جدید ترین تحقیق اور سائنس کے حساب سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اعلان ویانا ،آسٹریا میں ہونے والی اٹھارویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس کے سرکاری اعلامیے میں کیا گیا ہے۔
ویانا ڈکلریریشن نامی یہ ڈاکیومنٹ سائنسدانوں اور طبی ماہرین کی ایک ٹیم نے کانفرنس سے پہلے تیار کیا تھا اور دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو انٹرنیٹ پر موجود اس اعلامیے پر دستخط کر کے اس کی حمایت کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
اس وقت تک اس اعلامیے پر ساڑھے گیارہ ہزار افراد اور تنظیمیں دستخط کر چکی ہیں جن میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ بھی شامل ہے۔
اعلامیہ تیار کرنے والے سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کے مطابق منشیات کے عادی لوگوں کو مجرم سمجھنے کے بجائے مریض سمجھ کر ان کی مدد کرنے سے بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اور ایڈز کے پھیلاؤ کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
امریکی فلاحی ادارے یو ایس ایڈ میں ایچ آئی وی ایڈز کے شعبے کے سربراہ رابرٹ کلے کے مطابق جن ممالک میں منشیات کے عادی لوگوں کا علاج کرنے کے بجائے انہیں مجرم سمجھ کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے وہاں لوگ نہ تو علاج کے لیے سامنے آتے ہیں اور نہ ہی جدید دوائیاں اور سائنسی معلومات ان تک پہنچتی ہیں۔
”ایسے لوگ اپنے گروہ بنا لیتے ہیں اور ایک دوسرے کی سرنجیں استعمال کرتے ہیں جس سے نہ صرف انہیں بلکہ معاشرے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔،،
یہ ڈکلریشن پاکستان جیسے ممالک کے لیے اہم ہے جہاں ایڈز سب سے زیادہ ان لوگوں میں پھیل رہی ہے جو غیر قانونی منشیات کا استعمال انجکشن کے ذریعے کرتے ہیں۔
اس کانفرنس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مختلف ممالک کو اپنی پالیسی میں ایسی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ منشیات کے عادی لوگوں کو اس عادت سے چھٹکارا دلانے میں مدد مل سکے، اور وہ قانون کے ڈر سے چھپتے نہ پھریں۔
اس سلسلے میں انہیں اوپی اوئڈ سبسٹیٹیوشن تھیراپی اور صاف سرنجیں فراہم کرنے کی بات کی جاتی ہے۔
اوپی اوئڈ تھیراپی میں ڈاکٹر کی نگرانی میں نشے کے عادی شخص کو نشے کی کم مقدار کا انجکشن لگایا جاتا ہے تاکہ اس میں وہ علامات ظاہر نہ ہوں جو ہیروئن جیسے کسی سخت نشے کو ایک دم چھوڑنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اس طرح آہستہ آہستہ نشے کی مقدار کو کم کرکے بالآخر نشے کی عادت سے مکمل چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف طبی ماہرین کے مطابق یہ ضروری ہے کہ جب تک ایسے لوگ زیر علاج ہیں، انہیں نشے کے استعمال کے لیے صاف سرنجیں فراہم کی جائیں تاکہ کم از کم وہ ایڈز جیسے مہلک مرض میں مبتلا نہ ہوں اور اس کے مزید پھیلاؤ کا سبب نہ بنیں۔
اس کانفرنس میں موجود ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دو اقدامات سے نہ صرف ایڈز کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے بلکہ منشیات کے استعمال اور فرد اور معاشرے پر منشیات کے منفی اثرات کو رفتہ رفتہ کم کیا جا سکتا ہے۔