عالمی سطح پر ایڈز کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس مہلک مرض پرقابو پانے کےلیے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے فنڈز میں اضافہ کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔
گذشتہ ماہ جوہانسبرگ میں ایڈز کے خلاف سرگرم افراد نے،جن میں سے چند اس مہلک مرض میں مبتلا تھے، امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر ایڈز کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی فنڈنگ میں کمی کا ارادہ رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ووآؤٹ بارڈرزکی سرگرم رکن شیرن ایکامبرم کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے فنڈز میں کٹوتی کی تو باقی ممالک بھی یہی رویہ اپنائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایڈز کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر لڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ بیماری ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوگی۔ ان کا کہناتھا کہ موزمبیق جیسے غریب ممالک میں ایڈز کے خلاف 90 فیصد اخراجات دیگر ممالک کی جانب سے ادا کیے جاتے ہیں۔
یوکرین میں ایڈز کے مریضوں اور اس مرض کی روک تھام کے لیے کام کرنے والوں نے اس ماہ کے آغاز میں کائیو کے ایک اسپتال کے ایڈز وارڈ کی امکانی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اس اسپتال میں ایڈز کے علاج معالجے کے لیےبہترین طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
حالیہ چند ماہ میں امریکہ سمیت دنیا کے مختلف علاقوں سے اس قسم کی خبریں آئیں تھیں کہ ناکافی فنڈز کے باعث ڈاکٹرز ایڈز کے مریضوں پر توجہ نہیں دے پارہے ہیں۔ چند افریقی ممالک میں، طبی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بین الاقوامی معیار کے مطابق ایڈز کے علاج کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں ۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایڈز کے ایک معالج اینتھونی فاؤچی نے ایک کانفرنس میں یہ مسئلہ اٹھایا۔ ڈاکٹر فاؤچی کے مطابق اس بیماری کے سالانہ تیس لاکھ کے لگ بھگ نئے کیسیز سامنے آرہے ہیں۔ اس لیے علاج معالجے کی ان کی ضرورتیں بڑھ گئی ہیں۔
نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر وفا الصدر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز چاہتے ہیں کہ وہ ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج مرض کی شدت میں اضافہ ہونے سے پہلے کریں ۔ خاص طور پر حاملہ خواتین کے سلسلے میں۔ وہ اس وائرس میں مبتلا بچوں کا بھی علاج کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لیے زیادہ فنڈز درکار ہیں۔
ایڈز کی روک تھاک کے سلسلے میں امریکی امداد میں محض دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق بہت سے امیر ممالک نے ایڈز میں مبتلا افراد کے لیے کافی امداد فراہم نہیں کی۔