رسائی کے لنکس

فلسطین کا دوسرا بڑا شہر ’الخلیل‘


قسط نمبر 9 ۔۔۔ اسلامی عقیدے کے مطابق الخلیل کو مکہ ِمکرمہ، مدینہ ِمنورہ اور یروشلم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے چوتھا مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔

گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔

بیت اللحم سے نکلتے نکلتے ڈھائی بج گئے، سورج بادلوں کی اوٹ میں ہو گیا اور بادل تھوڑے ہی دیر میں جم کر برسنے لگے۔ اب ہمارا رخ Hebron کے تاریخی شہر کی طرف تھا جسے عربی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے الخلیل کہا جاتا ہے۔ بیت اللحم سے الخلیل کا فاصلہ یوں تو 14 میل کا ہے مگر بارش اور سڑک پر گاڑیوں کے شدید رش کی وجہ سے یہ فاصلہ ایک گھنٹے سے زائد مسافت پر پھیل گیا۔

’الخلیل‘، غزہ کے بعد فلسطین کا دوسرا بڑا شہر ہے اور مسلمانوں کے لیے بے حد محترم بھی کہ یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحقٰ علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے مراقد ِعالیہ ہیں۔ اسلامی عقیدے کے مطابق الخلیل کو مکہ ِمکرمہ، مدینہ ِمنورہ اور یروشلم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے چوتھا مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے۔

تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ایک تنگ سی گلی میں موجود تھے۔ یروشلم اور بیت اللحم کے قدیمی شہروں کی طرح الخلیل کے اندرون شہر کی گلیاں بھی تنگ تھیں اور بارش کے پانی کی وجہ سے سڑکوں پر کیچر بھی پھیلا تھا۔ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقبرے کے قریب ہی گاڑی کھڑی کی اور حاضری دینے چل پڑے۔ دو گلیوں بعد ایک دیوار پر لگی تختی پر ’مقبرہ سید ابراہیم‘ لکھا تھا۔ بیس تیس سیڑھیاں چڑھ کر ہم ’مسجد ِابراہیمی‘ میں داخل ہو گئے۔

بی بی سارہ کا روضہ
بی بی سارہ کا روضہ


اندر داخل ہو کر پہلی نظر بی بی سارہ کے مرقد پر پڑتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ تھیں۔ یہاں سے نکل کر مسجد میں داخل ہو کر حضرت اسحقٰ علیہ السلام اور انکی اہلیہ کی قبور ِمبارکہ دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں سے دائیں ہاتھ پر اندر کی جانب ایک کمرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مرقدِ عالیہ موجود ہے۔

حضرت اسحقٰ علیہ السلام کا مرقد
حضرت اسحقٰ علیہ السلام کا مرقد

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علامتی قبر
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علامتی قبر


حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو تعویذ (اصل قبر پر بنائی گئی قبر) دکھائی دیتا ہے، وہ دراصل علامتی قبر ہے اور یہاں مدفون انبیائے علیہ السلام اور ان کی ازواج کی اصل قبور ایک غار میں تقریبا 40 فٹ کی گہرائی میں ہیں جہاں کسی کی رسائی نہیں اور مقامی اسلامی ’وقف‘ کی جانب سے غاروں میں موجود ان قبور کو ان معزز ترین ہستیوں کے احترام کی وجہ سے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ البتہ ایک چھوٹی سی جالی کے ذریعے نیچے غار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہودی عقیدے میں اس مقام کو Cave of Patriarchs کہا جاتا ہے۔ یہودیت میں یروشلم کے بعد اس مقام کو مقدس ترین مانا جاتا ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی یہ قطعہ ِاراضی اپنے مدفون ہونے کے لیے حاصل کر لی تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقبرہ یا مسجد ِابراہیمی دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ مسجد جبکہ دوسرا حصہ سیناگاگ یا یہودیوں کی عبادت گاہ ہے جہاں پر صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ بہت کوشش کے باوجود ہمیں سیناگاگ میں جانے کی اجازت نہیں ملی۔ اسرائیلی چیک پوسٹ پر تعینات فوجیوں کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنی مسجد میں یہودیوں کو نہیں آنے دیتے اسی لیے ہمارے سیناگاگ میں مسلمانوں کا داخلہ منع ہے۔

25 فروری 1994ء کو ایک امریکی اسرائیلی آبادکار باروچ گولڈسٹین نے رمضان کے مہینے میں جمعے کے روز نماز ِفجر کے وقت مسجد میں گھس کر مسلمانوں پر گولیاں برسائی تھیں جس کے نتیجے میں 29 فلسطینی مسلمان ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اسی واقعے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مرقد کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مسجد اور سیناگاگ میں بلٹ پروف شیشے کی دیواروں سے ذریعے تقسیم کر دیا گیا۔۔۔ سال میں دس دن ایسے ہیں جب یہودی مسلمانوں کے حصے میں اور مسلمان سیناگاگ میں داخل ہو سکتے ہیں۔

ہمارے پاس وقت کی کمی تھی، ورنہ جی چاہتا تھا کہ الخلیل کے اس تاریخی شہر کے فلسطینی باشندوں سے ملاقات کی جائے۔۔۔ الخلیل شہر کو 1994ء میں ’اوسلو معاہدے‘ کے بعد دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ H1 جو کہ فلسطین جبکہ H2 اسرائیلی حکام کے زیر ِانتصام ہے اور تقریبا شہر کا 20٪ علاقہ H2 کا حصہ ہے۔

اس شہر کی ہوا میں ایک بوجھل پن نمایاں ہے اور مقامی چہروں پر خوف واضح دکھائی دیتا ہے۔۔۔ یہودی آبادکاری اور بے تحاشا سیکورٹی کے باعث مسلمانوں کے لیے یہاں پر کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جبکہ ہر کچھ عرصے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں اور خونریزی کے واقعات یہاں پر آج بھی معمول کی بات ہیں۔

مغرب کے لگ بھگ ہم مسجد ِابراہیمی پر الوداعی نظر ڈال کر باہر نکلے تو بھوک زوروں پر چمک رہی تھی۔۔۔ عبدالقادر ہمیں الخلیل میں عرب مٹھائی کی ایک بہت مشہور دکان ’پیراڈائز سوئیٹس‘ پر لے گیا جہاں میں نے زندگی کا بہترین ’کُنافہ‘ کھایا۔

مشہور عرب مٹھائی ’کُنافہ‘
مشہور عرب مٹھائی ’کُنافہ‘


بارش ہنوز برس رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ آج رات بارش کا رکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ٹھنڈ بھی بڑھ چکی تھی۔ آج کا دن خاصا طویل ہو چلا تھا اور تھکن سے حالت غیر ہو چلی تھی، ہوٹل پہنچتے پہنچتے دس بج گئے۔

جاری ہے۔۔۔

XS
SM
MD
LG