برطانیہ کے قومی اخبار 'دی گارڈین" میں جمعرات کو چھپی ایک خبر کے مطابق القاعدہ سے وابسطہ ایک پروپگنڈا نیٹ ورک 'گلوبل اسلامک میڈیا فرنٹ' نے اعلان کیا ہے کہ کشمیری عسکریت پسند ذاکر موسیٰ کو متنازعہ فیہہ منقسم ریاست میں قائم کیے گئے اس کی نئے سیل کا سربراہ مقرر کردیا گیا ہے-
تئیس سالہ ذاکر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کی نئی نسل جواپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا کا خوب استعمال کررہی ہے کا کلیدی چہرہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، وہ القاعدہ کی 'انصار غزوة الہند' نامی سیل کی قیادت کرے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں القاعدہ نے باظابطہ طور پر ایک بیان جاری کردیا ہے۔
تاحال خود ذاکر موسیٰ کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اُس کے متعلق بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی اضلاع میں عسکریت پسندوں کے نسبتا "ایک چھوٹے گروپ کی قیادت میں سرگرم ہے تاہم حالیہ ہفتوں میں اُس نے اپنا دائرہ اثر بڑھانے کی کوششیں تیز کیں۔"
گزشتہ دنوں دارالحکومت سرینگر اور وادیٰ کشمیر کے چند دوسرے علاقوں میں بھارت سے آزادی کے حق میں کئے گئے مظاہروں اور بھارتی مسلح افواج کے ساتھ ہوئی جھڑپوں میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی تدفین کے دوران ذاکر کے حق میں نعرے لگائے گئے تھے جبکہ بعض علاقوں میں دیواروں پر اُس کی تعریف میں نعرے لکھے گئے ہیں۔
ذاکر سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان مظفر وانی کا ایک قریبی ساتھی تھا۔ برہان کو بھارتی فوج نے 8 جولائی 2016 کو ایک آپریشن کے دوران ہلاک کیا تھا جس کے بعد علاقے میں پانچ ماہ تک جاری رہنے والی بد امنی میں اسی سے زائد شہری ہلاک ہوئے تھے۔
ذاکر نے اس سال کے شروع میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے ایک اتحاد کے اس بیان پر شدید ردِ عمل دکھایا تھا کی علاقے میں جاری تحریکِ مزاہمت مذہب کے لئے لڑی جانے والی جنگ ہے اور نہ اس کا القاعدہ یا داعش جیسی تنظیموں کے ساتھ کوئی تعلق ہے بلکہ یہ کشمیریوں کی خالصتا" اپنی تحریک ہے اور اس کا مقصد ریاست کے ڈیڑھ کروڑ عوام کے لئے آزادی حاصل کرنا ہے۔
ذاکر نے اپنے ردِ عمل میں ایسے لوگوں کےسر قلم کرنے کی دھمکی دی تھی جو اُس اور اس جیسے کشمیری نوجوانوں کی طرف سے چلائی جارہی مسلح جدوجہد کو ایک سیکیولر تحریک قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کی اس کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست میں اسلامی نظام قائم کرنا نہیں ہے۔
یہ بیان حزب المجاہدین کے لئے سُبکی کا باعث بنا اور اس نے فوری طور پر اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ لیکن ذاکر نے اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہے اور اگر حزب المجاہدین کا اُس کے خیالات سے اتفاق نہیں تو اُس کا بھی اس تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔
عہدیداروں نے ماضی میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں القاعدہ اور داعش کی موجودگی سے انکار کیا ہے۔ بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے اسپیشل ڈائرکٹر جنرل ایس این شری واستوا نے جمعرات کو بتایا کہ بھارتی مسلح افواج اسقدر باہمت اور طاقتور ہیں کہ وہ کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرسکتی ہیں اور اُن کے بقول ہر عسکری تنظیم کو چاہے وہ کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو ناکوں چنے چبوا دیں گی۔
اِدھر جمعرات کو بھارتی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے حد بندی لائین کے علاقے میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے دراندازی کرکے بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں داخل ہونے والے تین عسکریت پسندوں کو ایک جھڑپ میں ہلاک کردیا۔