رسائی کے لنکس

'مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کریں گے'


استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے مرکزی صدر علیم خان کہتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ملک کو عدم استحکام کا شکار کر سکتی ہے اور آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی۔

اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت حکومتی اتحاد میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی وہ حکومتی اتحاد میں شامل کسی جماعت کے ساتھ مل کر الیکشن میں حصہ لے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ "ہم اپنا الیکشن لڑیں گے، اپنے منشور پر لڑیں گے، اپنے انتخابی نشان پر لڑیں گے، ہر حلقے میں امیدوار کھڑے کریں گے اور اپنے مخالفین کے خلاف بھرپور الیکشن لڑیں گے۔"

خیال رہے کہ آئی پی پی نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والے اراکین پر مشتمل نئی تشکیل شدہ جماعت ہے۔

آئی پی پی کے دو اراکین کی وفاقی کابینہ میں موجودگی کے سوال پر علیم خان نے کہا کہ یہ اراکین پارٹی میں شمولیت سے پہلے سے وفاقی کابینہ کا حصہ تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اب جب کہ حکومت کے خاتمے میں ایک ماہ کی مدت رہ گئی ہے تو انہیں ایسے وقت میں کابینہ سے مستعفی نہیں ہونا چاہیے۔

'عمران خان نے جو کیا ہے وہ بھگتنا پڑے گا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:01 0:00

علیم خان نے کابینہ میں شامل عون چوہدری اور نعمان لنگڑیال کو مستعفی ہونے کا کہا تھا تاہم بعد ازاں پارٹی چیئرمین جہانگیر ترین نے انہیں کابینہ میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی۔

'امید ہے انتخابات وقت پر ہوں گے'

علیم خان کہتے ہیں کہ عام انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں اور ان میں کسی قسم کی تاخیر ملک کو عدم استحکام کا شکار کر سکتی ہے۔

علیم خان کے بقول خواہش ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہوں اور انہیں امید ہے کہ اکتوبر یا نومبر میں عام انتخابات ہو جائیں گے۔

اس سوال پر کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی انتخابات التوا کا شکار ہیں تو ایسے میں قومی انتخابات میں تاخیر کی باز گشت بھی ہے۔

علیم خان نے کہا کہ صوبے میں نگراں حکومت کے ذریعے چار ماہ تک ملک کو چلانا اور وفاق کو چلانے میں فرق ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت کے پاس الیکشن کرانے کا مینڈیٹ ہے پاکستان کو چلانے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے دنیا کے ساتھ تعلقات نئی حکومت کے ساتھ منسلک ہیں اور آئی ایم ایف نے بھی محدود مدت کے لیے معاہدہ کیا ہے تاکہ نئی آنے والی حکومت کے ساتھ بات چیت سے طویل مدتی معاملات طے کیے جائیں۔

ایسے میں علیم خان کہتے ہیں کہ یہ نہ صرف ان کی خواہش ہے بلکہ انہیں امید بھی ہے کہ قومی انتخابات وقت پر ہوں گے اور ان میں تاخیر نہیں برتی جائے گی۔

اس سوال پر کہ اگر انتخابات التوا کا شکار ہوتے ہیں تو آئی پی پی کا کیا مؤقف ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے مشاورت سے فیصلہ کیا جائے گا۔

انتخابات کے حوالے سے اپنی جماعت کی تیاری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن مہم کے آغاز کے ساتھ ہی ان کہ جماعت کے کارکن و رہنما سڑکوں پر اور جلسے کرتے نظر آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئی پی پی کی انتخابی مہم کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور انتخابی مہم کو قبل از وقت شروع نہیں کرنا چاہتے تاکہ اس کے مومینٹم کو برقرار رکھا جا سکے۔

'پرویز خٹک اور ہمارا نظریہ ایک ہے'

سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کے آئی پی پی میں شمولیت کے بجائے الگ جماعت بنانے پر علیم خان نے کہا کہ پرویز خٹک اور ان کا نظریہ ایک ہے کہ نو مئی کے واقعات کے بعد کوئی محب وطن پاکستانی عمران خان کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پرویز خٹک کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی لیکن وہ شاید سمجھتے ہیں کہ آئی پی پی قیادت کا تعلق پنجاب سے ہے اور وہ خیبر پختونخوا کے ساتھیوں کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں اس لیے الگ جماعت کا اعلان کیا۔

علیم خان نے کہا کہ وہ پرویز خٹک کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں محبِ وطن پاکستانی اپنی سیاست جاری رکھیں۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرِ دفاع نے رواں ہفتے خیبر پختونخوا کے سابق اراکین اسمبلی پر مشتمل اپنی الگ جماعت کا اعلان کیا تھا۔

اس سوال پر کہ ناقدین کہتے ہیں کہ آئی پی پی اور پرویز خٹک کی جماعت ٹیک آف سے پہلے ہی کریش کر گئی کے جواب میں علیم خان نے کہا کہ الیکشن ہو گا تو پتا چلے گا کہ کون ٹیک آف کرتا ہے اور کون کریش کرتا ہے۔

'عمران خان نے جو کیا ہے وہ بھگتیں گے'

عمران خان کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کے امکانات پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں علیم خان نے کہا کہ اگر آپ شہدا کے مجسمے توڑیں گے اور فوجی تنصیبات کو آگ لگائیں گے تو کوئی آپ کو الیکشن لڑنے دے گا؟

انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کور کمانڈر کے گھر کو جلائے اور جی ایچ کیو پر حملہ کرے۔ لہذا عمران خان نے جو کیا ہے وہ بھگتنا پڑے گا۔

علیم خان کہتے ہیں کہ کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کو امریکہ نے آزاد نہیں چھوڑا بلکہ 18، 18 برس کی سزا دی گئی ہے۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف قانونی اقدامات کو ٹیکنیکل ناک آؤٹ نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ان کے اپنے کیے ہوئے جرائم کی سزا ہے۔

یاد رہے کہ نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں پرتشدد مظاہرے ہوئے جس میں فوجی تنصیبات پر بھی حملے کیے گئے۔

'سن 2018 کے الیکشن میں جنرل فیض نے یقینی بنایا کہ عمران وزیر اعظم بنیں'

علیم خان کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات سے قبل نواز شریف کی عدالت کے ذریعے نااہلی درست اقدام نہیں تھا۔ تاہم ان کے بقول یہ اقدام عمران خان کو انتخابات جتوانے کے لیے کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض نے یہ یقینی بنایا کہ نواز شریف انتخابات سے باہر ہو جائیں اور عمران خان وزیرِاعظم بنیں تاکہ وہ خود اگلے آرمی چیف بن سکیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جہانگیر ترین کو بھی نااہل کیا گیا۔

اس سوال پر کہ کیا جہانگیر ترین آئندہ الیکشن میں حصہ لیں گے علیم خان نے کہا کہ جہانگیر ترین انتخابات میں نہ صرف حصہ لیں گے بلکہ وہ وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ پارلیمنٹ سے نااہلی کی مدت کے حوالے سے منظور شدہ نئے قانون کے بعد جہانگیر ترین پر الیکشن میں حصہ نہ لے سکنے کی پابندی ختم ہو گئی ہے اور اس حوالے سے اگر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا تو کریں گے۔

'سائفر سازش میں ملوث مرکزی کردار ہماری جماعت میں شامل نہیں'

اس سوال پر کہ اعظم خان کے امریکی سائفر سے متعلق بیان پر آپ نے کہا کہ ثابت ہو گیا کہ آئی پی پی کا قیام درست تھا تاہم اس میں ملوث بہت سے لوگ تو آج آپ کی جماعت میں ہیں، کے جواب میں علیم خان نے کہا کہ سائفر تنازعے میں ملوث مرکزی کرداروں میں سے کوئی بھی ان کی جماعت میں شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک کی تحقیقات میں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کا نام شامل کرداروں میں لیا جا رہا ہے اور جب تحقیقات ہوں گی تو معلوم ہو گا کہ عمران خان نے کن کن کے ساتھ مل کر یہ سازش تیار کی تھی۔

علیم خان نے کہا کہ عمران خان کے پاس سب سے بڑا ترپ کا پتہ یہ ہی تھا کہ ایک عالمی سازش کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا جس کے پیچھے امریکہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ آسان طریقہ تھا لوگوں کے احساسات کو بھڑکانے کا اور سڑکوں پر لوگوں کو اکھٹا کرنے کا۔ لیکن چھ ماہ کے بعد عمران خان نے اس پر بھی یوٹرن لے لیا اور کیا کہ ان کی حکومت کے پیچھے امریکہ نہیں بلکہ کچھ اور قوتیں تھیں۔

علیم خان کہتے ہیں کہ عمران خان کا پاکستان کے مفاد، سالمیت اور عالمی تعلقات سے کوئی تعلق نہیں اور وہ صرف اور صرف اپنے مفاد کو دیکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG