پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'الپائن کلب آف پاکستان' نے پانچ فروری کو لاپتا ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی موت کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔
ہلاک ہونے والے کوہ پیماؤں میں ایک پاکستانی اور دو غیر ملکی شامل ہیں۔
ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی سے تعلق رکھنے والے ہوان پابلو موہر نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو کو سر کرنے کی غرض سے گزشتہ ماہ مہم جوئی شروع کی تھی۔
تاہم پانچ فروری کی دوپہر سے تینوں کوہ پیماؤں کا اپنے خاندان اور بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان فوج اور دیگر اداروں نے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا۔
کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے ہیلی کاپٹروں سمیت تمام دستیاب وسائل استعمال میں لائے گئے۔ سیٹیلائٹ سروے کے علاوہ فارورڈ لوکنگ انفراریڈ ریڈار سسٹم سے تصاویر لی گئیں۔ لیکن دو ہفتے کی طویل اور مسلسل تلاش کے بعد تینوں کوہ پیماؤں کا سراغ نہ مل سکا۔
جمعرات کو گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور محمد علی سدپارہ کے اہلِ خانہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران باضابطہ طور پر تینوں لاپتا کوہ پیماؤں کی موت کا اعلان کیا۔
موت کی تصدیق کا سنتے ہی لوگ جوق در جوق محمد علی سدپارہ کے اسکردو میں واقع گاؤں 'سدپارہ' کی طرف امڈ آئے تاکہ ان کے غم زدہ خاندان کا دکھ درد بانٹ سکیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مقامی صحافی وزیر مظفر حسین نے بتایا کہ تینوں کوہ پیماؤں کو لاپتا ہوئے تقریباً دو ہفتے گزر چکے تھے اور ایسے حالات میں کسی کے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا ہے اسکردو میں اس وقت غم کا ماحول ہے اور لوگ انتہائی سوگ میں ہیں۔
وزیر مظفر کے مطابق محمد علی سدپارہ نہ صرف ایک کوہ پیما تھے بلکہ وہ ایک سماجی کارکن بھی تھے جو علاقے میں تعلیم کو عام کرنے کے خواہش مند تھے۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے مظاہر سدپارہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے والد چاہتے تھے کہ وہ سب تعلیم حاصل کریں۔ وہ اپنے بیٹوں کو کوہ پیمائی نہیں بلکہ سرکاری افسر بنانا چاہتے تھے۔ کیوں کہ اُنہیں اس خطرناک کھیل کے داؤ پیچ کا بخوبی علم تھا، جس کا وہ آخر کار خود شکار ہو گئے۔
پاکستان کی جانب سے دنیا کے سات براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے کوہ پیما مرزا علی بیگ کا کہنا ہے کہ کوہ پیماؤں کے مختلف رُوپ ہوتے ہیں۔ لیکن محمد علی سدپارہ بہت زیادہ مضبوط اور بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ نفیس اور عاجز انسان تھے۔
انہوں نے بتایا کہ محمد علی سدپارہ بھوک، مشکل، تھکاؤٹ اور پریشانی کے باوجود دوسروں کی مدد میں پیش پیش ہوتے تھے۔
اُن کے بقول غیر ملکی اور مقامی کوہ پیماؤں میں وہ 'برفانی چیتا' کے نام سے بھی مشہور تھے۔
محمد علی سدپارہ کی زندگی
تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد محمد علی سدپارہ 1976 میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم سدپارہ گاؤں سے ہی حاصل کی تھی جس کے بعد اُن کے خاندان نے اسکردو کا رُخ کیا۔
محمد علی سدپارہ کو بچپن سے ہی کوہ پیمائی کا شوق تھا۔ انہیں گاؤں کا سب سے زیادہ صحت مند شخص قرار دیا جاتا تھا۔
موسمِ سرما میں کے-ٹو کی مہم کو سر کرنے کے عزم سے قبل وہ دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے آٹھ سر کر چکے تھے۔ جب کہ باقی ماندہ چھ چوٹیاں، بشمول دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو وہ جلد از جلد سر کرنے کے خواہش مند تھے۔
ان کی سرکردہ چوٹیوں میں گیشبروم 1، گیشبروم 2، اسپینتیک چوٹی، مزتیگ اتا، نانگا پربت، براڈ پیک، پوموری چوٹی، موسم گرما میں کے ٹو، لوٹسا، مکلو، مناسلو، شامل ہیں۔
جمعرات کو اسکردو میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت ناصر علی خان نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے ان کی حکومت نے محمد علی سدپارہ اور ان کے صاحبزادے ساجد سدپارہ کو سول اعزاز سے نوازنے کی سفارش کی ہے۔
ناصر علی خان کے مطابق محمد علی سدپارہ کے بچوں کی تعلیم اور کفالت کے علاوہ ساجد سدپارہ کو متعلقہ شعبے میں ملازمت دی جائے گی۔
اُن کے بقول ضلع شگر میں بننے والے ماؤنٹین اسکول کو قومی ہیرو محمدعلی سدپارہ سے منسوب بھی کیا جائے گا۔
محمد علی سدپارہ کے بچپن کے دوست غلام محمد کا کہنا ہے کہ وہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کو والد سے زیادہ دلیر اور طاقتور دیکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پانچ فروری کو موسمِ سرما میں کے ٹو کو سر کرنے کی مہم جوئی میں ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ تھے۔ لیکن صحت کی خرابی اور آکسیجن سلینڈر کی خرابی کے باعث انہیں آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے اپنا سفر معطل کرنا پڑا۔ جس کے بعد وہ پہلے کیمپ فور اور بعد میں کیمپ تھری میں گئے۔ جہاں انھوں نے سخت سردی اور خراب موسم میں اپنے والد کے واپس آنے کا انتظار کیا۔
یاد رہے کہ کے ٹو کی چوٹی پر زیادہ تر حادثات بلندی سے نیچے کی جانب آتے ہوئے پیش آتے ہیں۔ اب تک اس خونخوار چوٹی کو سر کرنے کی کوشش میں نوے سے زائد کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔
غلام محمد کا کہنا ہے کہ تمام خدشات اور خطرات کے باوجود ساجد سدپارہ نہ صرف زندہ سلامت واپس آئے بلکہ دوسرے ہی دن انہوں نے ریسکیو کی ٹیموں کے ساتھ اپنے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں کے سرچ آپریشن میں بھی حصہ لیا۔
ان کے بقول کے ٹو کی چوٹی سے واپس آنا اور پھر سرچ آپریشن میں حصہ لینے سے ساجد سدپارہ کے اعصاب کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔