پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل پر تشدد کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ عمران خان سمیت تحریکِ انصاف کی سینئر قیادت کا دعویٰ ہے کہ شہباز گل کو حراست کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ پنجاب کے وزیرِ داخلہ کا مؤقف ہے کہ اُن پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔
پنجاب کے وزیرِ داخلہ کرنل (ر) ہاشم ڈوگر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ شہباز گِل کو دورانِ قید جیل میں خصوصی سیل میں رکھنے پر جیل عہدے داروں کو ہٹانے کی سفارش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی قیدی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جا رہا۔ اُنہوں نے مجاز اتھارٹی کو ڈی آئی جی اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی ہے جس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ڈی آئی جی جیل خانہ جات راولپنڈی ریجن اور سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کی عدالت نے پولیس کی نظرِ ثانی درخواست منظور کرتے ہوئے بدھ کو شہباز گل کو ایک بار پھر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
ہاشم دوگر نے بدھ کو اڈیالہ جیل میں عمران خان کے معاونِ خصوصی شہباز گَل سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دورانِ جیل اُن پر کسی قسم کا تشدد نہیں ہوا۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ جیل کے اندر موجود کسی بھی قیدی کو کوئی انگلی بھی لگائے۔
محکمہ جیل خانہ جات کے مطابق سپرنٹنڈنٹ جیل کو تو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن ڈی آئی جی کو ہٹائے جانے کے حوالے سے مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔
پنجاب کے وزیرِ داخلہ کرنل ریٹائرڈ ہاشم ڈوگر کہتے ہیں کہ شہباز گِل پر تشدد اڈیالہ جیل میں نہیں ہوا بلکہ اُس وقت ہوا جب وہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں تھے جنہیں عدالت نے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اُنہوں نے شہباز گِل پر تشدد ہوتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن اطلاعات ہیں کہ جب وہ دو یا تین دِنوں کے لیے اسلام آباد پولیس کی تحویل میں تھے تو اُن پر تشدد کیا گیا۔ جس کے نشانات عدالت میں بھی دکھائے گئے جب اُنہیں ریمانڈ میں توسیع کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا۔
اڈیالہ جیل میں شہباز گِل کے ساتھ ہونے ہوالی ملاقات کا حال بتاتے ہوئے ہاشم ڈوگر نے کہا کہ شہباز گِل نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کی شکایت کی تھی۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ شہباز گِل کے جسم پر اُنہوں نے تشدد کے نشانات نہیں دیکھے، ہو سکتا ہے کہ پانچ روز بعد تشدد کے نشانات ختم ہو گئے ہو۔
ڈاکٹر شہباز گل پر الزام ہے کہ اُنہوں نے چند روز قبل نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائی نیوز' پر دورانِ گفتگو فوج کے جونیئر افسران کو سینئر افسران کے خلاف بغاوت پر اُکسایا۔ ان پر بغاوت اور ریاست کے خلاف جنگ سمیت دیگر الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
محکمہ جیل خانہ جات کے ایک افسر کے مطابق اڈیالہ جیل کے جس حصے میں شہباز گِل کو رکھا گیا اُس حصے یعنی سیل کی صفائی کرائی گئی۔ افسر کے مطابق شہباز گَل پر دورانِ قید کسی قسم کا تشدد نہیں ہوا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جیل خانہ جات کے افسر کا مزید کہنا تھا کہ صوبے بھر کی جیلوں میں مختلف قیدیوں کو جرم کے حساب سے قید کیا جاتا ہے۔
'شہباز گل عدالت میں بیان دیں گے تو معاملہ سامنے آئے گا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ جب تک شہباز گِل عدالت میں آ کر اُن پر ہونے والے مبینہ تشدد بارے بیان نہیں دیتے تب ہی بات زیادہ کھل کر سامنے آئے گی۔ ایک طرف پی ٹی آئی اِس کا الزام لگا رہی اور دوسری طرف حکومت اُس کی تردید کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ جمہوری حکومتیں ہوں یا آمریت کا دور، سیاسی قیدیوں پر جسمانی تشدد اور اُنہیں اذیت دینے کی روایت رہی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتحار احمد سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے پر پنجاب کے صوبائی وزیر کےبیانات کی روشنی میں تو شہباز گَل پر تشدد نہیں ہوا جبکہ نشدد نہ ہونے کے باوجود جیل حکام کے سینئر عہدیداروں کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور وجہ یہ بتائی گئی گئی کہ شہباز گل کو کال کوٹھری میں رکھا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وزیرِ موصوف جیل کے قوانین سے لاعلم ہیں۔
خیال رہے سابق وزیراعظم عمران خان نے دو روز قبل نجی ٹیلی ویژن جی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ شہباز گل کو برہنہ کر کے اُن پر تشدد کیا گیا ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان کی جیلوں میں تشدد کی شکایات صرف اسی صورت ختم ہو سکتی ہیں جب ملک میں قانون کی مکمل عمل داری ہو۔